محبت ہو تو برق جسم و جاں ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محبت ہو تو برق جسم و جاں ہو
by انور دہلوی

محبت ہو تو برق جسم و جاں ہو
وہ آتش کیا کہ سینے میں نہاں ہو

نہیں ہوا اور پھر کہنے کو یہاں ہو
حریف بد گماں کے ہم گماں ہو

تحیر فرط شوق دید سے ہوں
وہیں مجھ کو بھی دیکھو تم جہاں ہو

سنی جاتی ہو جب محشر میں روداد
تو اپنی ختم کیوں کر داستاں ہو

وہ مستغنی سہی پر دل گیا ہے
جو پھر ہو تو انہیں پر کچھ گماں ہو

جو سچ ہو وعدۂ دیدار ان کا
تو باتوں میں قیامت کیوں عیاں ہو

مجھے سر پھوڑنے میں عذر کیا ہے
مگر ان کا ہی ہی سنگ آستاں ہو

تمہیں وہ پردہ یہاں ہے پردہ داری
میرے دل میں نہیں تو پھر کہاں ہو

رکا جاتا ہے دم سینہ میں کیا کیا
گلے پر کاش خنجر سا رواں ہو

چھپائے ہم سے کیا کیا راز اپنے
اگر کوئی ہمارا رازداں ہو

رہے کیوں تلخیٔ فرہاد کا ذکر
اگر شیریں کی شیریں داستاں ہو

زلیخا پر نہ ہو کیوں نازش عشق
کہ جب یوسف متاع کارواں ہو

عدو خوش خوش ہے کچھ کہہ کر سنا ہے
نہ مانوں گا کبھی تم بے دہاں ہو

ملا ہے بیٹھے رہنے کا سہارا
جہاں ہو اور تمہارا آستاں ہو

اسی میں فیصلہ سمجھا ہوں دل کا
کہاں تک دیکھیے ضبط فغاں ہو

یہاں بیٹھے ہو پر کچھ اکھڑے اکھڑے
نظر ملتی نہیں دل سے کہاں ہوں

سراپا سوز ہے الفت میں انورؔ
عجب کیا ہے اگر آتش‌ زباں ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse