محبت کی فطرت ہے یہ بے قراری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محبت کی فطرت ہے یہ بے قراری
by ہوش بلگرامی

محبت کی فطرت ہے یہ بے قراری
کوئی کیا کرے گا مری غم گساری

وہی کامیابی کے اسرار سمجھا
محبت کی بازی یہاں جس نے ہاری

تمہارے اشاروں پہ چلتی ہے دنیا
نہ مختار یاں ہیں نہ بے اختیاری

مرے دل کو پتھر خدارا نہ سمجھو
نگاہیں پھر اس پر نگاہیں تمہاری

محبت کی قسمت میں لکھی ہوئی ہے
یہی درد مندی یہی اشک باری

زمانہ مرا سوز غم کیا سمجھتا
کہ ہر سانس ہے اک نئی شعلہ باری

غم دل سناتا ہوں میں ہوشؔ ان کو
مگر کوئی دیکھے مری بے قراری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse