محبت کیا بڑھی ہے وہم باہم بڑھتے جاتے ہیں
محبت کیا بڑھی ہے وہم باہم بڑھتے جاتے ہیں
ہم ان کو آزماتے ہیں وہ ہم کو آزماتے ہیں
نہ گھٹتی شان معشوقی جو آ جاتے عیادت کو
برے وقتوں میں اچھے لوگ اکثر کام آتے ہیں
جو ہم کہتے نہیں منہ سے تو یہ اپنی مروت ہے
چرانا دل کا ظاہر ہے کہ وہ آنکھیں چراتے ہیں
سماں اس بزم کا برسوں ہی گزرا ہے نگاہوں سے
کب ایسے ویسے جلسے اپنی آنکھوں میں سماتے ہیں
کہاں تک امتحاں کب تک محبت آزماؤ گے
انہیں باتوں سے دل اہل وفا کے چھوٹ جاتے ہیں
خمار آنکھوں میں باقی ہے ابھی تک بزم دشمن کا
تصدق اس ڈھٹائی کے نظر ہم سے ملاتے ہیں
دل اک جنس گراں مایہ ہے لیکن آنکھ والوں میں
یہ دیکھیں حسن والے اس کی قیمت کیا لگاتے ہیں
کسی کے سر کی آفت ہو ہمارے سر ہی آتی ہے
کسی کا دل کوئی تاکے مگر ہم چوٹ کھاتے ہیں
گئے وہ دن کہ نامے چاک ہوتے تھے حفیظؔ اپنے
حسین اب تو مری تحریر آنکھوں سے لگاتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |