محبت کا مجھے دعویٰ ہی کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محبت کا مجھے دعویٰ ہی کیا ہے
by عزیز حیدرآبادی

محبت کا مجھے دعویٰ ہی کیا ہے
چلو جانے بھی دو جھگڑا ہی کیا ہے

بہت کچھ دیکھنا ہے آگے آگے
ابھی دل نے مرے دیکھا ہی کیا ہے

الٰہی کس کے لئے گرتی ہے بجلی
نشیمن میں مرے رکھا ہی کیا ہے

محبت میں جئے یا کوئی مر جائے
کسی کی آپ کو پروا ہی کیا ہے

نہ مانے گا نہ مانے گا مرا دل
"نہیں" سے آپ کی ہوتا ہی کیا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse