محبت کا اثر جاتا کہاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محبت کا اثر جاتا کہاں ہے
by داغ دہلوی

محبت کا اثر جاتا کہاں ہے
ہمارا درد سر جاتا کہاں ہے

دل بیتاب سینے سے نکل کر
چلا ہے تو کدھر جاتا کہاں ہے

عدم کہتے ہیں اس کوچے کو اے دل
ادھر آ بے خبر جاتا کہاں ہے

کہوں کس منہ سے میں تیرے دہن ہے
جو ہوتا تو کدھر جاتا کہاں ہے

ترے جاتے ہی مر جاؤں گا ظالم
مجھے تو چھوڑ کر جاتا کہاں ہے

ہمارے ہاتھ سے دامن بچا کر
ارے بیداد گر جاتا کہاں ہے

تری چوری ہی سب میری نظر میں
چرا کر تو نظر جاتا کہاں ہے

اگرچہ پا شکستہ ہم ہیں اے داغؔ
مگر قصد سفر جاتا کہاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse