محبت میں ٹھنی اکثر یہاں تک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محبت میں ٹھنی اکثر یہاں تک
by مبارک عظیم آبادی

محبت میں ٹھنی اکثر یہاں تک
کہ پہنچے معرکے تیر و کماں تک

چلے ناوک کھنچی ظالم کماں تک
کہاں تک امتحاں آخر کہاں تک

چلے جاتے ہیں آواز جرس پر
پہنچ جائیں گے بچھڑے کارواں تک

ہوائے شوق کے جھونکے سلامت
رہوگے تم پس پردہ کہاں تک

نہ وہ عیار مجھ سے پوچھتا ہے
نہ دل کی بات آتی ہے زباں تک

اسی سر کو سر شوریدہ کہیے
جو پہنچے اس کے سنگ آستاں تک

نیاز و ناز کے چرچے رہیں گے
ہماری اور تمہاری داستاں تک

مبارکؔ کو کوئی دن اور سن لو
بیاں کا لطف ہے اس خوش بیاں تک

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse