محبت غیر سے کی ہے تو میرا مدعا لے لو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محبت غیر سے کی ہے تو میرا مدعا لے لو
by مضطر خیرآبادی

محبت غیر سے کی ہے تو میرا مدعا لے لو
مرے دل پہ گزرتی کیا ہے اس کا بھی مزا لے لو

جو کہتا ہوں جفائیں چھوڑ دو عہد وفا لے لو
تو کہتے ہیں خدا سے تم مقدر دوسرا لے لو

جو پوچھا چھوڑ دوں الفت تو بولے اس سے کیا ہوگا
جو پوچھا اپنا دل لے لوں تو جھنجھلا کر کہا لے لو

جناب خضر راہ عشق میں لڑنے سے کیا حاصل
میں اپنا راستہ لے لوں تم اپنا راستہ لے لو

شب فرقت جو درد دل سے مضطرؔ دم الجھتا ہے
قضا کہتی ہے گھبراؤ نہیں مجھ سے دوا لے لو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse