محبت صلح بھی پیکار بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محبت صلح بھی پیکار بھی ہے
by جگر مراد آبادی

محبت صلح بھی پیکار بھی ہے
یہ شاخ گل بھی ہے تلوار بھی ہے

طبیعت اس طرف خوددار بھی ہے
ادھر نازک مزاج یار بھی ہے

ادائے عشق ادائے یار بھی ہے
بہت سادہ بہت پرکار بھی ہے

یہ فتنے جن سے اک دنیا ہے نالاں
انہیں سے گرمئ بازار بھی ہے

جنوں کے دم سے ہے نظم دو عالم
جنوں برہم زن افکار بھی ہے

نفس پر ہے مدار زندگانی
نفس چلتی ہوئی تلوار بھی ہے

اسی انسان میں سب کچھ ہے پنہاں
مگر یہ معرفت دشوار بھی ہے

وہ بوئے گل کہ ہے جان چمن بھی
قیامت ہے چمن بے زار بھی ہے

یہی دنیا ہے نسبت آنسوؤں کی
یہی دنیا تبسم زار بھی ہے

جہاں وہ ہیں وہیں میرا تصور
جہاں میں ہوں خیال یار بھی ہے

خبردار اے سبک ساران ساحل
یہ ساحل ہی کبھی منجدھار بھی ہے

غنیمت ہے کہ اس دور ہوس میں
ترا ملنا بہت دشوار بھی ہے

جو کوئی سن سکے تو نکہت گل
شکست رنگ کی جھنکار بھی ہے

ان آنکھوں کی زہے معجز بیانی
بہم انکار بھی اقرار بھی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse