محبت باعث نا مہربانی ہوتی جاتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
محبت باعث نا مہربانی ہوتی جاتی ہے
by مضطر خیرآبادی

محبت باعث نا مہربانی ہوتی جاتی ہے
ہماری ساری محنت دھول دھانی ہوتی جاتی ہے

حکایت ہوں جو راتوں کو ہمیشہ ہوتی رہتی ہے
شکایت ہوں جو آپس میں زبانی ہوتی جاتی ہے

ترا غم آج تک تازہ ہے ظالم ورنہ دنیا میں
نئی شے دن گزرنے سے پرانی ہوتی جاتی ہے

تمہاری یاد میں اہل جہاں مر مر کے جیتے ہیں
قضا لوگوں کے حق میں زندگانی ہوتی جاتی ہے

بڑا الزام ٹھہرا ہے تعلق رشتہ داری کا
قرابت کی محبت بد گمانی ہوتی جاتی ہے

یہی تنبیہ ملنے پر انہیں مجبور کرتی ہے
یہی تاکید گویا ضد کی بانی ہوتی جاتی ہے

مرے غم میں وہ مجبوری سے ان حالوں کو پہنچے ہیں
کہ اب ان کی نزاکت ناتوانی ہوتی جاتی ہے

ترے کوچے میں اب گردش کی صورت پڑتی جاتی ہے
زمیں کی چال دور آسمانی ہوتی جاتی ہے

مرے پہلو میں دل کب تھا لہو کی بوند تھی مضطرؔ
سو اب وہ بوند بھی قسمت سے پانی ہوتی جاتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse