محاکمہ مرکز اردو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

کتاب[edit]

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مرکز اردو کا محاکمہ بدیں ثبوت کہ ہر زبان کا مرکز اس کی جاے پیدا‌‌‎ئش ہے۔ قطعہ ؎

آزادہ رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل

ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

مرکز میں آپڑی ہے مگر فلسفانہ بحث

مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے

جس طرح مرکز دائرہ کا وہ وسطی نقطہ ہے کہ اس سے محیط تک جس قدر خط کھینچیں وہ سب آپس میں برابر ہوں، اسی طرح زبان کا مرکز بھی وہ مقام ہے جہاں کسی زبان کے ایجاد یا پیدا ہونے کا مہر جہاں تاب طلوع ہوا ہو اور اس سورج کی کرنیں وہاں سے چاروں طرف پھیلی تو ہوں مگر قرب مرکز اور بعد مرکز میں وہی فرق ہو جو ہر ایک چیز کے قرب مخرج اور بعد مسافت میں ہوا کرتا ہے۔

پس اس سے ثابت ہے کہ ان کرنوں کی روشنی مقامات قریبہ میں بعیدہ کی نسبت زیادہ اثر کرے گی، یعنی جو اثر مرکز کے قریب ہوگا وہ بعید میں نہیں ہو سکتا۔ بلکہ جس قدر فاصلہ ہوتا جا‏‏ئے گا اسی قدر اس کا زور گھٹتا اور مغایرت بڑھتی جائے گی۔ شعلہ کی لپٹ یا تیزی جو اس کے پاس محسوس ہوتی ہے وہ زیادہ فاصلہ پر نہیں ہوتی۔ جوں جوں فاصلہ زیادہ ہوتا جائے‎ گا اس کی تیزی کم ہوتی چلی جائے گی۔ یہاں تک کہ بہت دور جا کر اس کا محسوس ہونا بھی قریب قریب معدوم یا نا معلوم ہو جائے گا اور ہر شخص تمیز کرنے سے مقصّر رہے گا۔ یعنی جس طرح وہ روشنی اپنی ہر ایک حد کو مرکز نہیں بنا سکتی اسی طرح زبان بھی اپنی اصلی جگہ اور نکاس چھوڑ کر دوسرے مقام کو اپنا مرکز یا مخرج نہیں قائم کر سکتی۔ ہر ایک ملک کی زبان اپنے ملک اور ہر ایک شہر کی بولی اپنے شہر سے ایک مخصوص خصوصیت رکھتی ہے۔ مرکز ہمیشہ اپنی خاص جگہ اس طرح قائم رہتا ہے جس طرح آفتاب اپنے خاص مقام پر قائم ہے اور دیگر سیّارے اس کے گرد گردش کر رہے ہیں، اسی طرح زبان کا مرکز بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکتا۔

ہر ایک درخت اپنی جڑ سے شاخوں، ٹہنیوں، پتّوں، پھولوں، پھلوں کو قوّت پہنچاتا ہے، نہ کہ شاخیں، ٹہنیاں، پتّے، پھول، پھل وغیرہ اس کی مدد کو آتے یا تقویت بخشتے ہیں۔ اس موقع پر مرکز کو منبع یا سر چشمہ خیال کرنا چاہیے اور اس کے خطوط یا شعاعوں کو سوتیں جو چاروں طرف پھیلتی اور ہر قسم کی مٹّی، جڑی بوٹی اور مختلف معدنیات کا اثر اپنے میں لیتی اور ابتدائی حالت میں فرق ڈالتی چلی جاتی ہیں۔

کوئی سی زبان کیوں نہ ہو اس کے جاننے اور استعمال کرنے والے دو قسم پر منقسم ہیں۔ ایک وہ جن کا اصلی وطن، جن کا مسقط الراس، جن کے باپ دادا اور ننھیال کا وطن وہی سر زمین اور خطہ ہو جس جگہ سے وہ زبان نکلی ہے۔ یہ لوگ اہل زبان کہلاتے اور اول قسم میں شمار ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جنھوں نے اس زبان کو مستند کتابوں سے، اساتذہ کے کلام سے، صحبت سے، اہل زبان کے مختلف مضامین اور اخباروں سے حاصل کیا ہو۔ بلکہ قریب قریب خاص محاورات و اصطلاحات کے علاوہ ویسی ہی زبان لکھنے اور بولنے لگے ہوں۔ لیکن اس پر بھی ان سے غلطی کا ہو جانا ممکن اور واجب التسلیم ہے۔ مگر اہل زبان سے ناممکن اور خلاف قیاس۔ یہ دوسری قسم کے لوگ زبان داں یا مقلّد زبان کہلاتے اور دوسرے درجہ میں گنے جاتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ جس جگہ کوئی چیز پیدا ہوتی ہے اس میں وہاں کی آب و ہوا، وہاں کی سر زمین، وہاں کے لاحقہ و عارضہ تغیّرات، طیور و وحوش، پیداوار، اشجار و اثمار، جمادات و نباتات وغیرہ کا اثر شامل حال ہوتا ہے۔ اسی طرح زبان بھی ان تعلّقات و عوارضات سے باہر نہیں ہو سکتی۔ یعنی ہر ایک زبان کے بولنے والوں میں ساخت گلو، ساخت دہن، طبیعی جذبات و خواص، اندرونی و بیرونی ملکات و اصناف تاثیرات، حسب موقع حرکات و سکنات، بلکہ سب سے زیادہ لب و لہجہ کا بہت بڑا دخل ہوا کرتا ہے اور یہی باتیں ہیں جن سے غیر ملک یا غیر شہر کا رہنے والا خواہ کیسا ہی کسی زبان کا عالم متبحر و ماہر کامل کیوں نہ ہو جائے، ٹھوکر کھائے بغیر نہیں رہتا اور اول پہچان اپنی اجنبیت ظاہر کر دیتا ہے۔ جیسا کہ صاحب قاموس اور اس کی بیوی خاتون عرب کا معاملہ زبان زد خلائق ہے۔ تذکیر و تانیث میں وہ لڑکنیاں کھاتا ہے، لب و لہجہ میں وہ پھسلتا ہے، خاص خاص اشاروں اور کنایوں میں وہ گرتا ہے، کسی امر کا سماں باندھنے میں وہ کنّی کھاتا ہے، از روے الفاظ مقامی اثر پیدا کر کے دکھانے میں وہ قاصر رہتا ہے، خوشی کا چربہ وہ نہیں اتار سکتا، ماتم کا پر درد سین وہ نہیں دکھا سکتا، بہادرانہ حرکات و دلیری، سپاہیانہ کرتب اور ہتھکھنڈے وہ ظاہر نہیں کر سکتا، رزم و بزم کا ہیرو وہ نہیں بنا سکتا، عادلانہ عدالت اور ظالمانہ ضلالت کا نقشہ وہ نہیں کھینچ سکتا۔ غرض اسی قسم کی اور سینکڑوں باتیں ہیں کہ وہ ہر جگہ کے اہل زبان کا حصّہ اور انھیں کا ورثہ ہیں۔

جن لوگوں میں کسی زبان کا تبحّر یا اس کا صحیح مذاق نہیں ہوتا اور اس امر کا دعوی کر بیٹھنے کی لاج دامن گیر ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ ایسی تدبیریں سوچا کرتے ہیں جن سے اہل زبان ہونے کی قید، زبان دانی کی پخ، ٹکسالی اور غیر ٹکسالی محاورات کی جانچ ایک سرے سے اٹھ ہی جائے اور ہم مصلح زبان ہونے کا دعوی کر سکیں۔ اہل زبان کے اعتراضات سے بچیں اور جو کچھ ہم قلم اٹھا کر آزادانہ اناپ شناپ لکھ دیں یہ سب کھپتا اور داخل زبان ہوتا چلا جائے۔ مگر یہ نہیں جانتے کہ جب تک مرکز زبان کا چکّر نہ کاٹیں، گلی گلی کی خاک نہ چھانیں، کوچہ کوچہ کی ٹھوکریں نہ کھائیں، وہاں کی شریف زادیوں کی گودیوں میں نہ پلیں، ان کی آب و گل، ان کی گھٹّی، ان کے خمیر میں وہاں کی طبیعی خصوصتیں، فطرتی امنگیں نہ پیدا ہوں، ان کی ما‎‌‎ؤں نے، ان کے بزرگوں نے، رنج کا، خوشی کا، خوف کا، دلیری کا، ہنسی کا، گریہ و زاری کا، مصیبت و آفت کا، روز مرّہ الفاظ اور ان کے برتاؤ کا، اخلاق اور معاشرت وغیرہ کا سبق نہ پڑھایا ہو، وہ مرکز زباں کے طفل مکتب کی برابری بھی نہیں کر سکتے۔ بلکہ ان پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ سکھائے پوت دربار نہیں جاتے۔

کیسے ہی بڑے بڑے مصنّف، کیسے ہی اعلی درجہ کے مضمون نگار، کیسے ہی عالم بے بدل، کیسے ہی فاضل بے مثل کیوں نہ ہوں، لیکن اس کوچہ سے نا بلد ہی رہیں گے۔ یعنی جب تک عاشقانہ ٹھوکریں نہ کھائیں گے، معشوقوں کی ناز برداریاں نہ اٹھائیں گے، ہر فرقہ کے لوگوں کے فقروں میں نہ آئیں گے، ان کی لن ترانیاں نہ سنیں گے، انھیں کب یہ درجہ میسّر ہوگا کہ وہ آسانی سے اہل زبان ہونے کا دم مارنے لگیں۔

زبان کی خوبی محاورات و اصطلاحات کی خوش اسلوبی، فصیحانہ بول چال، بلیغانہ خاص خاص ضرب الامثال، صنائع و بدائع کی واقفیت اور ہر قسم کی صحبت پر موقوف ہے۔ اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ جو لوگ اس بات کے درپے ہیں کہ اردو زبان کی یہ مخصوص خوبیاں جاتی رہیں، وہ صرف مخرّب زبان ہی نہیں بلکہ زبان کے مزے، روز مرّہ کے لطف، مذاق سخن تک سے نا واقف اور کسی ایسے کوردِہ کے رہنے والے ہیں جہاں زبان کو زبان ہی نہیں جانتے، اسے صرف ایک عضو معطّل خواہ گوشت کی بوٹی یا آلۂ اصوات سمجھتے ہیں، کجا کہ اس کے نکات اور اس کی باریکیوں سے لذّت آشنا ہونا۔

اس ضروری تمہید کے بعد اب ہمیں یہ دکھانا منظور ہے کہ دہلی کو کس وجہ سے اردو زبان کا خاص مرکز، خاص ملجا و ماویٰ، خاص ٹکسال گھر، خاص ماخذ و مخرج، خاص کھیت کہنا چاہیے تاکہ کھیت کے لکھے پڑھے بھی اسے بخوبی سمجھ لیں اور دل سے مان لیں کہ جب تک اردو کا لفظ اس زبان کے ساتھ وابستہ ہے، دہلی شاہجہاں آباد اس کی جان کے ساتھ ہم رشتہ ہے۔ ورنہ وہ اردو نہیں ایک ست بے جھڑی زبان ہے۔ علم ادب، علم مجلس، انشا پردازی، آداب شاہی، جملہ تصنیف و تالیف، تمام علوم و فنون میں کرسی نشینی کا رتبہ اگر ہے تو خاص اسی اردو کو حاصل ہے، باقی اللہ اللہ خیر سلّا۔

دہلی سے زیادہ کہیں کی زبان شیریں، سلیس، سہل المخارج، عام فہم، دلاویز، دل نشیں، مؤثر، بے تکلّف، خارج از آورد، لفّاظی سے نفور، بھرتی کے ثقیل و کرخت یا غیر مانوس الفاظ سے خارج اور مرغوب الطبع نہیں ہے۔ سلاست اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور بلاغت میں یہ ایک عجیب دل ربا ابلا پری ہے۔ اس کی بلند پروازی آسمان سے ٹکّر کھاتی ہے اور اس کی وسعت فضاے عالم سے بڑھ جاتی ہے۔ سر سیّد کی دھواں دھار اسپیچیں جو سامعین کا دل ہلا ہلا دیتی اور کبوتر کی طرح لٹا لٹا دیتی ہیں کہاں کی زبان میں تھیں، اسی دہلی کا تصدّق تھا۔ خواجہ حالی مد ظلہ العالی کی نظمیں جو سنگ دلوں کو موم بنا کر بن چھری تڑپاتی اور پھڑکاتی ہیں کس زبان کی رسیلی لاڈلیاں ہیں۔ خیر یہ تو ایک آمد سخن بات تھی، اس جملۂ معترضہ سے آگے سنیے۔

دیکھنا یہ ہے کہ دہلی کو اردو زبان کا مرکز کیوں کہتے ہیں اور دیگر امصار و دیار پر اس کا اطلاق کیوں روا نہیں رکھتے۔ یہ بات بالاتفاق مانی ہوئی اور تسلیم شدہ ہے کہ اردو زبان کا اگر مصدر ہے تو دہلی ہے، مبد‎ا و مخرج ہے تو دہلی ہے، مرکز و ماخذ ہے تو دہلی ہے۔ یہ پیدا کہاں ہوئی؟ دہلی میں۔ اس نے جنم کہاں لیا؟ دہلی میں۔ اس کا نعل کہاں گڑا؟ دہلی میں۔ اس کا خروج یعنی نکاس اور رواج کہاں سے ہوا؟ دہلی سے۔ اس کی بنیاد کہاں پڑی؟ دہلی میں۔ اس کا شاہ جہانی اردو نام کہاں رکھا گیا؟ دہلی میں۔ اس نے عروج کہاں پایا؟ دہلی میں۔ اس کا سرپرست اور بانی کون ہوا؟ شاہجہاں پادشاہ دہلی و ہندوستاں۔ البتّہ صاحب قران ثانی سے پیشتر اس زبان کی نیو رکھنے والے بزرگ تیرھویں صدی عیسوی میں جناب خواجہ ابو الحسن امیر خسرو دہلوی ہیں جنھوں نے دہلی کے سات بادشاہوں کی سلطنتیں دیکھیں، ان کے مصاحب رہے، معزّز عہدوں کی خدمت بجا لائے۔ علاء الدین خلجی کو اپنا ایسا دل دادہ بنایا کہ اسے آپ کے بغیر ایک لمحہ چین نہ آیا۔

نظم اردو کے متعلق گو ولی محمد گجراتی کو اس کا مخترع اور موجد بیان کرتے ہیں، مگر اس نے بھی جو کچھ فیض پایا دہلی میں رہ کر پایا اور اسی جگہ اپنے کلام کو ٹکسال بنا کر خراد چڑھایا اور اپنے پیر شیخ سعد اللہ عرف گلشن شاہ دہلوی کی ہدایت سے دیوان اردو مرتب کیا۔ اگر فارسی آمیز ہندی زبان کے بنیاد ڈالنے والے حضرت امیر خسرو ہیں تو اس میں تراش و خراش پیدا کرنے، با قاعدہ بنانے، ترتیب دینے، مروّج فرمانے، شاہجہانی اردو نام رکھنے والے شاہجہاں بادشاہ ہند ہیں اور یہ دونوں خاص الخاص دہلی سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

اس بات کو کون نہیں جانتا کہ جہاں سے کوئی زبان نکلتی اور جہاں کا بادشاہ اس کا سرپرست ہوتا ہے وہیں کی زبان ٹکسالی اور درباری کہلاتی ہے۔ گو مرور زمانہ کے باعث بعض پرانے الفاظ و محاورات متروک الاستعمال اور جدید مانوس الاستعمال ہوتے چلے جائیں۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان باتوں سے اس کا اصلی مسکن اور مرکز بھی بدل جائے یا اس کی آن و ادا اور انداز دلفریب میں فرق آجائے۔ دہلی کا روڑا اگر کسی کارخانہ کا بیٹھنے والا یا محنت و مزدوری کرنے والا، خواہ ٹوکری ڈھونے والا بھی ہوگا تو ممکن نہیں کہ وہ بے محاورہ بات زبان سے نکال جائے۔ ابھی کا ذکر ہے کہ ایک بڑھیا ماما جاڑے کے مارے سو سو کرتی ہوئی بازار سودا لینے جا رہی تھی، کسی دکان دار نے پوچھا کہ بڑی بی اس طرح کیوں سکڑتی ہوئی جا رہی ہو۔ اس نے جواب دیا کہ بھائی! برف کٹ رہی ہے۔ بھلا اس محاورے کو کوئی اور تو بول جائے، حالانکہ اس بڑھیا نے کوئی برفانی پہاڑ نہیں دیکھا، برف پڑتی ہوئی اس کی نظر سے نہیں گذری، مگر پھر بھی وہ ٹکسالی محاورہ زبان سے نکالا کہ جس سے سردی کی صورت بن گئی۔ کٹنے کے لفظ نے اور بھی جان ڈال دی، جس کا لطف اہل زبان ہی خوب لے سکتے ہیں۔

دہلی کی گلیوں میں آؤ، بازاروں میں پھرو، کارخانوں میں گشت لگاؤ، جامع مسجد کی سیڑھیوں کی ہوا کھا‎ؤ اور دیکھو کہ بازاری آدمیوں کے منہ سے بھی کیسے پھول جھڑتے ہیں، ان کی گالیوں اور مذاق کو بھی ندرت سے خالی نہیں پاؤگے۔ جہلا اور بازاریوں کی زبان سے کبوتر کو قبوتر سنوگے، پتّھر کو پھتّر گوش زد فرماؤگے، فصیل کو صفیل استماع کروگے، بلکہ کی بجاے بلکن کی آواز تمھارے کانوں میں پڑے گی، علی ہذا کدھی بجاے کبھی، تعینات بجاے متعین، مگھم بجاے مبہم، جریبانہ بجاے جرمانہ اصغا کروگے، مگر اس کے لوچ، اس کے لہجہ اور تذکیر و تانیث نیز فصیحانہ انداز کے لحاظ سے جان لوگے کہ وہ برمحل اور درست پتا دے رہا ہے۔ گو غلط العام سے گذر کر غلط العوام کالانعام اور تحریری استعمال سے باہر سہی لیکن بول چال میں کوئی عیب نہیں پاؤگے۔

ہاں اہل زبان کو یہ بات ضرور ملحوظ رکھنی پڑتی ہے کہ جن الفاظ نے عہد حال میں رواج پایا ہے، ان پر بناے سخن موقوف رکھتے ہیں، گو قدما کسی اور طرح استعمال کر گئے ہوں مگر انھیں موجودہ طبقہ کے روز مرّہ کی طرف رجوع کرنی محاورے کی صحت کے لیے ایک لازمی امر ہے۔ یعنی اس حالت میں بھی اہل زبان کو استعمال الفاظ و ایراد محاورات میں اپنے ہی شہر کے محاورے پر اعتماد کرنا چاہیے، نہ کہ زبان اطراف کی طرف رجحان کیا اور قدما کے متروک الاستعمال الفاظ پر دھیان رکھا جائے۔

اسی طرح مقلّد کو بھی اہل زبان کے محاورے کی تلاش لازم ہے تاکہ اس کا سخن قابل اعتبار ہو۔ مقلّد سے غیر ملک کا آدمی ہماری مراد نہیں ہے۔ دہلی کے علاوہ ہند کے کسی شہر اور قصبے کا رہنے والا زبان داں کیوں نہ ہو۔ جس حالت میں اہل دہلی کی زبان اصل اردو و مبدءِ فصاحت قرار دی گئی اور یہ شہر زبان کا ٹکسال گھر ٹھہرا تو ہند کے اطراف و جوانب کے باشندے گو وہ لکھنؤ، اکبرآباد، بنارس، کانپور، میرٹھ یا لاہور وغیرہ کے رہنے والے ہی کیوں نہ ہوں، دائرۂ تقلید و احاطۂ تتبّع سے خارج نہیں ہو سکتے۔ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ دہلی شاہجہاں آباد کے سوا دوسرا کوئی سا شہر ٹکسال اور مرکز اردو قرار نہیں پا سکتا، کیونکہ اردو لکھنا اور ہے اور اس کا صحیح لہجہ ادا کرنا اور۔

جس طرح ساکنان دہلی، اہل مشرق و اہل پنجاب کے موافق ہاے مخلوط یا ہاے ہوّز ایک خاص لہجہ سے ادا نہیں کر سکتے اور اہل پنجاب حرف قاف کے تلفّظ سے معذور پائے جاتے ہیں، اسی طرح دہلی کے سوا دوسری جگہ کے رہنے والے یہاں کے لب و لہجہ میں ان کی برابری نہیں کر سکتے۔ لفظ ہواں صاحبان مشرق، لفظ بھرا باشندگان پنجاب جس خوبی سے ادا کریں گے، دہلی والے اگر سر پٹک کر مر جائیں گے تو بھی ان کے حلق سے ادا نہ ہوگا۔

اس میں شبہ نہیں کہ اہل دہلی صرف ایک ہی لفظ سے بتغیّر لہجہ مختلف معانی پیدا کر سکتے ہیں۔ فقط ایک ہاں کے لفظ یا اور کے استعمال کو دیکھیے کس کس موقع پر لہجہ بدلنے سے کیا کیا معنی دیتا ہے، علی ہذا القیاس بھلا، بہت اچھا وغیرہ وغیرہ۔

اس موقع پر ہمیں چند ایسے شعروں کا لکھ کر دکھا دینا بھی مناسب ہے جو صرف لہجہ سے اپنی خوبی ظاہر کرتے اور اداے مقاصد کا زور دار کام لیتے ہیں۔ اشعار ذیل باوجودیکہ خاص محاورات و اصطلاحات سے پہلو بچائے ہوئے ہیں، مگر ان میں اگر حرکات و سکنات اور لہجہ سے کام نہ لیا جائے تو سر تا سر بے لطف اور بے نمک بات ہو جائے، یہاں تک کہ کچھ بھی مزا نہ آئے۔ گو عشقیہ مضمون ہیں، مگر ایشیائی شاعری جب اسی پر موقوف ہے تو کیا کیا جائے۔ یہ اشعار ان لوگوں کے ہیں جنھیں زبان پر پورا پورا قابو اور اس کی حرکات و سکنات پر بدرجۂ اتم عبور حاصل ہے۔ اشعار ؎

میں نے ہی؟ بزم غیر میں کی شب کو مے کشی

میری ہی؟ آنکھوں میں تو نشہ ہے شراب کا

مسّی مَل کو تم نہ غرفہ سے نکالا منہ کرو

اور نہیں گر مانتے تو جاؤ؟ کالا منہ کرو

تم تو بیٹھے ہی بیٹھے آفت ہو!

اٹھ کھڑے ہو تو کیا قیامت ہو!

غنچۂ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں

بوسہ کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں

سر بوقت ذبح اپنا اس کے زیر پاے ہے

یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس خلق اے خضر!

نہ تم! کہ چور بنے عمر جاوداں کے لیے

گل پھینکے ہیں عالم کی طرف بلکہ ثمر بھی

اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی

اب تو راضی ہو کہ ہم جینے سے بیٹھے ہیں خفا

اب تو خوش ہو کہ تمھارا ہی کہا کرتے ہیں

کیوں دل زار محبت کا نتیجہ دیکھا؟

درد فرقت کا کوئی پوچھنے والا دیکھا؟

کیا کہیں! خاک کہیں! عشوہ گروں نے مارا

جان کر سیدھا سا بے چارا مسلماں ہم کو

جی بھی اٹھو کہ یار آتا ہے

دم یہ خاصا دیا مسیحا نے

ہم دموں کا پوچھنا ہر دم مرا دم کھا گیا

کیا کہوں میں، دم نہیں مجھ میں، مجھے غم کھا گیا

رہو گے دل میں آنکھوں سے نہاں ہو

بھلا؟ بچ کر رہو! جاتے کہاں ہو

ہنس ہنس کے کرو تنگ نہ مجھ خاک نشیں کو

دیکھو! میں ہلا دوں گا ابھی چرخ بریں کو

پیو بھی! پلاؤ بھی! اس کا مزا ہے

یہ مینا رکھا ہے یہ ساغر دھرا ہے

مزا ہے یہی بات میں بات نکلے

ادا میں ادا جب نہ ہو پھر تو کیا ہے

کریں بت کدہ سے عبث قصد کعبہ

یہاں بھی خدا ہے وہاں بھی خدا ہے

رخصت کے وقت ہاے اس انداز کے نثار

انگڑائی لے کے اس نے کہا دیکھنا مجھے

ادھر میں ہوں ادھر محشر میں تو ہو

جو ہونی ہو خدا کے رو برو ہو

میخانہ میں کیا لطف ہے کیا مانگ ہے ساقی

آواز چلی آتی ہے لا اور، پلا اور

میں بھی تو آزمائش مہر وفا کروں

میرا تو امتحان کئی بار ہو چکا

کبھی کی ہو چکی جاں تک بھی نذر جانستاں طالب

دھرا ہے خاک یہاں لینے جو کچھ اب موت آئی ہے

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزّت سادات بھی گئی

اس کی سیدھی سیدھی باتیں دل میں چبھتی ہیں بہت

ایسا ویسا تم نہ سمجھو اس کو بیدلؔ دور ہے

منہ سے تو پھوٹ بیدلؔ کیا تو نے جی میں ٹھانی

تیرا اداس رہنا آفت کی ہے نشانی

وہ قہقہے کہاں ہے وہ ولولے کدھر ہیں

روتا ہوں یاد کر کے گذری ہوئی جوانی

اب سانس کے لینے کی بھی طاقت نہیں باقی

بیدلؔ کا برا حال ہے اللہ بچا لے

بھلا میں ان کے چکمہ میں کہیں آنے کے قابل ہوں

اگر اغیار بے ڈھب ہیں تو یاروں میں بھی بیدل ہوں

تھا جواب آپ کی شکایت کا

ورنہ شکوہ ہمارا کام نہیں

سچ پوچھیے تو ملنا ممکن نہیں جہاں میں

دانا بھی آدمی سا نادان بھی بشر سا

خوشی جینے کی کیا مرنے کا غم کیا؟

ہماری زندگی کیا اور ہم کیا؟

کیا کہیں باغ جہاں میں کیا سے کیا کیا ہو گیا

خار صحرا گل ہوا اور پھول کانٹا ہو گیا

دیکھنا باد بہاری کی ذرا اٹھکھیلیاں

آج بلبل کا چمن میں گل سے کانٹا ہو گیا

میکدہ دور ہے کتنی اے شیخ!

لو آؤ ابھی پی کے چلے آتے ہیں

کیسی شفا کہاں کی شفا یہ بھی چند روز

قسمت میں تھا کہ نا‌ز مسیحا اٹھائیے

عاشق کی دلداری دلبر کیا ہی خدا را کرتے ہو

ان نیچی نیچی نظروں سے تم کام ہمارا کرتے ہو

کہاں تک راز عشق افشا نہ کرتا

مثل ہے یہ کہ مرتا کیا نہ کرتا

اگر مینا کی گردن ختم نہ ہوتی

تو کیا ساقی کو میں سیدھا نہ کرتا

اس عاشق غریب کو گر وہ ستائیں گے

پہنچیں گے کس فلاح کو کیا فیض پائیں گے

ارادہ گدگدی کا اور نہ قصد بوسہ یاں دل میں

بھلا تم بیٹھے بیٹھے بے تکلف کیوں سنبھل بیٹھے

زاہد تجھے قسم ہے خدا کی ادھر تو آ

کیا نور سا جھلکتا ہے شیشہ کے جام میں

بت ہی بن کر آن بیٹھیں گے بلا تو لو ہمیں

کاٹ لینا تم زباں گر لب ہلائیں سامنے

ہم کو آرام ہو چکا ناصح

آپ کی بات اور طبیب کی بات

یاں تلک آکے پھر الٹا تمھیں جانا کیا تھا

کیا زمین ماپنے آئے تھے یہ آنا کیا تھا

یہ کبھی ہونی نہیں میں تمھیں سونے دوں آج

لاکھ اب آپ لیا کیجیے انگڑائیاں

ڈبا دیا مجھے اس چشم تر کو کیا کوسوں

جلا دیا مجھے سوز جگر کو کیا کوسوں

لو ہم ہی اس جہان سے روپوش ہو چلے

تہ کر رکھو اب آپ اس اپنے حجاب کو

قدم کو ہاتھ لگاتا ہوں اٹھ کہیں گھر چل

خدا کے واسطے اتنے تو پاؤں مت پھیلا

نہ روکو مجھ کو یہ کہہ کر کہ ہا! سنو تو سہی

وصال میں ہے ستم یہ ادا سنو تو سہی

چلو بس حضرت عیسی تم اپنا کام کرو

مریض عشق کو ہوگی شفا؟ سنو تو سہی

چھوٹ جائیں غم کے ہاتھوں سے جو نکلے دم کہیں

خاک ایسی زندگی پر تم کہیں اور ہم کہیں

دل کھول کے مل چکیے جو میر سے ملنا ہے

آنکھیں بھی دکھاتے ہو پھر منہ بھی چھپاتے ہو

کچھ بات راز کی ہے ذرا کان لائیے

ہے جی میں آج خوب عدو کو بنائیے

کیا دیکھتا ہے ہاتھ مرا چھوڑ دے طبیب

یاں جان ہی بدن میں نہیں نبض کیا چلے

نہ کر برباد عمر بے بہا کی ایک ساعت بھی

کہ یہ جنس گراں مایہ کہیں جا کر بھی آتی ہے

غرض جن وجوہ سے اہل زبان کو اپنے ہاں کے طبقۂ موجودہ کے روز مرّوں اور محاوروں کی تقلید سے گریز لازم نہیں، اسی طرح مقلّد زبان پر بھی یہ فرض نہیں کہ وہ پرانی لکیر کا فقیر بن کر زبان قدما کی پیروی عیار سخن اور میزان زبان قرار دے۔

ہم دیکھتے ہیں جس طرح دہلی کو مرکز اردو سے حرف غلط کی طرح اڑایا جاتا ہے، اسی طرح لکھنؤ پر بھی منہ آیا جاتا ہے۔ گو اہل دہلی لکھنؤ کو بھی اس وجہ سے مرکز اردو نہ مانیں کہ اودھ میں دہلی ہی کے اہل زبان یہاں کے قدر دانوں کے مٹ جانے کے سبب وہاں جا کر رہے اور انھوں نے اسی اجڑے دیار یعنی دہلی کے محاورات و اصطلاحات کو وہاں بھی اپنے روز مرّہ برتاؤ اور بول چال میں برقرار رکھا۔ چنانچہ ایک موقع پر سید محمد تقی میر نے خود فرمایا ہے۔ قطعہ ؎

کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

ایک دفعہ حضرت غالب سے ناسخ کی بابت پوچھا تو آپ نے بھی طنزا یہ جواب دیا ؎

زبان میر اور مرزا کہاں ہے

مگر ہاں پُربیوں میں خوش بیاں ہے

اس کے علاوہ جو خاندان شاہان اودھ کے مورث اعلی کے ساتھ دہلی سے بگڑ کر لکھنؤ چلے گئے تھے، وہ بھی اکثر دہلی کے امرا و شرفا کے خاندان تھے جن کی آل و اولاد آصف الدولہ کے عہد سے لے کر سعادت علی خاں کے زمانہ تک تمام دربار پر حاوی و مسلّط رہی۔ اسی وجہ سے اعلی طبقہ کے لوگوں میں انھیں کی زبان جاری ہوئی، یہاں تک کہ شعراے دہلی بھی نوابان لکھنؤ کی قدر دانی کے باعث اسی طرف جھک پڑے۔ ادھر مرزا رفیع السودا اپنے بلیغ اشعار کا گراں مایہ سودا لے کر وہاں پہنچے، ادھر سید محمد تقی میر اپنی فصاحت کا ڈنکا بجاتے ہوئے درآمد ہوئے۔ اخیر میں میر غلام حسن متخلّص بہ حسن خلف میر غلام حسین ضاحک نے آسمان لکھنؤ میں بدر کمال اور ماہ منیر بن کر کھیت کیا۔ جب تک ان لوگوں کا دور دورہ اور دم کا دمامہ رہا، انھوں نے اپنی زبان کو مشرقی زبان کے اختلاط سے برابر بچاے رکھا۔ مگر پھر جو زمانہ نے پلٹی کھائی تو وہاں کی وہ زبان جو خاص خاص لوگوں میں مروّج تھی، پوربی بھاکا آمیز اردو بن گئی، یہاں تک کہ نامی شعراے لکھنؤ بھی اس سے نہ بچ سکے، کچھ نہ کچھ اثر آ ہی گیا۔ بلکہ محاورات کے علاوہ وہاں کے لب و لہجہ نے بھی وہی طرز اختیار کر لی جس سے اہل دہلی کے کان نہ جب آشنا تھے اور نہ اب آشنا ہیں۔ لکھنؤ کے صرف عوام نے ہی اس پر عمل نہیں کیا بلکہ خواص بھی خالی نہ رہے۔ اکثر تذکیر و تانیث کے فرق سے لے کر محاورات میں بھی بہت کچھ بل پڑ گیا۔ چنانچہ ہم تمثیلاً نہایت اختصار کے ساتھ چند باتیں بلا ترتیب معرض تحریر میں لاتے ہیں، دونوں جگہ کے اہل زبان نظر انصاف سے ملاحظہ فرمائیں کہ یہ فرق جو پایا جاتا ہے کیا اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ ہر حالت میں دہلی کے سوا دوسرا مقام اردو کا مرکز ہوا ہے نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جناب میر انیس مرحوم فخریہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے آبا و اجداد خاک پاک دہلی سے تھے۔ اب چند تمثیلیں ملاحظہ فرمائیے۔ مثلاً ساؤنی گانا، ساؤنی پھولنا اہل دہلی کبھی نہیں بولتے مگر حضرت امیر مینائی اور جناب احمد علی صاحب شوق وغیرہ کے کلام میں موجود ہے۔ امیر ؎

جب چمن میں آگیا مستوں کو ساون کا خیال

ساؤنی گاتی ہوئی آئی گھٹا برسات کی

اور بھی لگائی آگ ساؤنی نے پھول کر

پیڑ پر میری نظر پھر پڑی نہ بھول کر

پانا بجاے لینا یا حاصل کرنا دہلی والے کبھی نہیں بولتے مگر امیر صاحب و حضرت شوق نے باندھا ہے، ملاحظہ ہو۔ امیر ؎

ہاتھ ہے کوتہ شاخ ہے اونچی پائیں گے کیونکر کوئی ثمر ہم

پا کے تمھارے خط کو آج دل کی تڑپ بڑھی کچھ اور

دل میں بھڑک کے غم کی آگ جسم پہ تپ چڑھی کچھ اور

یا قدم رکھتی نہیں تو آنسوؤں کو پا کے شور

یا قدم جمتے نہیں غالب ہے تجھ پر ان کا زور

لاکھ بٹ جائے خیال آئے جو تو چین آ ہی جائے

شوق کو بھی یہ تمنّا ہے کہ تجھ کو پا ہی جائے

بولا چاہتی ہے خاص پوربی اور کھڑی بول چال ہے، مگر حضرت امیر نے اسے بھی داخل فصاحت فرمایا ہے ؎

خوشامد اے دل بیتاب اس تصویر کی کب تک

یہ بولا چاہتی ہے پر نہ بولے گی نہ بولی ہے

نشہ ہرن کرنا ؎

بڑھاپے نے ہرن سب کر دیے نشے جوانی کے

علی ہذا لفظ جان جائیے ؎

کیا ہے ہمارے دل میں بھلا جان جائیے

چکھا چاہیے ؎

ترک لذت بھی نہیں لذت سے کم

کچھ مزہ اس کا بھی چکّھا چاہیے

چاٹ دینا ؎

وہ چاٹ دوں کرے نہ مذمّت شراب کی

پیراک ؎

دست و پا کتنے ہی پیراکوں نے مارے رہ گئے

ارے توبہ۔ احمد علی شوق ؎

ارے توبہ ستاروں پر ہوئے کیا کیا گماں دیکھو

تلوری ؎

آ پڑا باشا تلوری پر وہ کندے جوڑ کر

کیا میں غل کردوں کہ یہ اڑ جائے اس کو چھوڑ کر

تتلی ؎

تتلیوں کے رنگ دیکھو کس قدر دلچسپ ہیں

سر پھرنا ملاحظہ ہو ؎

تو نے رخ جدھر کیا دل کا رخ ادھر پھرا

تو پھرا جو یاس سے دل بھر آیا سر پھرا

پینگ آنا جانا ؎

پینگ آئیں جائیں گے اور ہلے گا دل مرا

پلنگ پر رہنا ؎

وہ پلنگ انھیں کا ہے اس پہ اب رہے تو کون

خود آ کے وہ رہیں جا کے یہ کہے تو کون

چہرے کا رنگ کٹنا ؎

ضعف سے جسم لٹ چلا، روح بدن سے ہٹ چلی

چہرے کا رنگ کٹ چلا، نبض کی چال گھٹ چلی

کرم کی لفظی رعایت ؎

تم سے مرے نصیب میں شاید ابھی کرم نہیں

وہ ہیں بڑے ہی خوش نصیب ہجر کا جن کو غم نہیں

اسی طرح شعریں، برسیں، چپتیں، سانسیں، چھان بنان بجا‏‏‏ے چھان بین، گتّھی بجاے گنجلک یا گلجھٹی، بھل بجاے بل، پلّا بجاے پلڑا، بھنگی آنکھ بجاے بھینگی آنکھ۔ گواہی دینا ہوگی، لوٹ چلو، پلٹ چلو بجاے پھر چلو، میں ان کے یہاں گیا تھا، وہ میرے کے یہاں آئے تھے بجاے ہاں۔ (سکت، آنکھ مچولا، دھاگا، چپت، طوطی، دریا، ہاتھی وغیرہ بحالت تانیث)۔ (مالا، موتیا، فہم، ہتھنی، وغیرہ بحالت تذکیر)۔

امیر؎

کب زاہدوں کو مسئلہ عشق کا ہے فہم

ارے صاحب، ارے تو صاحب لے اب جائیے، لے اب جانے دیجیے، تمسّک لکھ گیا، روپیہ کھو گیا بجاے کھویا گیا، ابھی ابھی، سانسیں، سلّی بجاے پتھری، مچّھی بمعنی بوسہ نیز مچھلی، لے اب ہماری بھی سنو، جھوٹھا، اندھڑ بجاے اندھیاؤ، سارے دن بجاے تمام دن وغیرہ وغیرہ۔ اس موقع پر ہمیں دو لطیفے یاد آگئے۔

پہلا لطیفہ

استاد ذوق کے پاس ایک مرتبہ ان کے ایک لکھنوی دوست شیخ ناسخ کی ایک تازہ غزل سنانے آئے جس کے تین شعر یہ ہیں۔ اشعار ؎

کوئی غنچہ ہے کوئی گل ہے کوئی پژمردہ ہے

دیکھتے ہیں ہم تماشا گلشن ایجاد کا

عاشق جانباز کا ضائع نہیں جاتا ہے خوں

خسرو و شیریں سے پوچھو ماجرا فرہاد کا

باغ سے وحشت ہوئی یاد قد دل دار میں

دیو کا سایہ ہوا سایہ مجھے شمشاد کا

مگر استاد ذوق کے پاس یہ غزل پہلے ہی پہنچ چکی تھی اور وہ اس پر غزل بھی لکھ چکے تھے چنانچہ جھٹ اندر اٹھ کر گئے اور وہ غزل لاکر سنانے بیٹھ گئے جس کے تین شعر یہ ہیں۔ اشعار ؎

سرو عاشق ہو گیا اس غیرت شمشاد کا

غل مچایا قمریوں نے ہے مبارک باد کا

ہے قفس سے شور ایک گلشن تلک فریاد کا

خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیّاد کا (جناب نواب احمد سعید خاں صاحب جاگیردار لوہارو فرماتے ہیں ؎

طالب غزل سرا ہے تو کہتے ہیں اہل بزم

طوطی چہک رہا ہے کسی شاخسار پر)

کچھ گداز عشق میں ہوتا اثر تو دیکھتے

کوہ کے چشموں سے ہوتا خوں رواں فرہاد کا

دوسرا شعر سنتے ہی چونکے اور فرمایا کہ ہیں؟ آپ نے طوطی کو مذکر باندھ دیا، حالانکہ اس میں یاے معروف علامت تانیث موجود ہے۔ کل کو آپ جوتی کو بھی احاطۂ تذکیر میں لے آئیں گے۔ استاد ذوق نے فرمایا کہ حضرت! محاورے پر کسی کے باپ کا اجارہ نہیں ہے، آج آپ میرے ساتھ چوک پر چلیے اور اکبر آباد کی یہ ضرب المثل کہ "چڑیمار ٹولا، بھانت بھانت کا جانور بولا" آزمائیے، دیکھیے کہاں کہاں کے پکھیرو جمع ہوتے اور کیا کیا ہانک لگاتے ہیں۔ وہ اس بات پر راضی ہوگئے۔ جب شام کا وقت ہوا، دونوں صاحب جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جہاں گذری لگتی ہے پہنچے۔ دیکھا، کوئی قسم قسم کے کبوتروں کا پنجرا بھرے بیٹھا ہے، کسی کے پنجرے میں لال ہیں، کسی کے بئے، کوئی اصیل مرغ کی گردن پر ہاتھ پھیر پھیر کر دکھا رہا ہے، کوئی مینا، کوئی اگن، کوئی بٹیر، کوئی تیتر لیے ہوئے ٹہل رہا ہے۔ ایک شہدے صاحب بھی ہاتھ میں طوطی کا پنجرہ اٹھائے دنڑ خم دکھاتے چلے آتے ہیں۔ استاد ذوق نے اشارہ کیا، ذرا ان سے بھی دیافت کر لیجیے۔ آپ نے بے تکلف پوچھا کہ "بھیا! تمھاری طوطی کیسی بولتی ہے؟" بھلا شہدے سے ایسے موقع پر کب رہا جاتا ہے، جواب دیا کہ میاں بولتی تمھاری ہوگی یاروں کا طوطی تو خوب بولتا ہے"، یہ غریب بہت خفیف ہوئے اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ استاد ذوق نے کہا کہ حضرت اس بات پر نہ جائیے کہ شہدوں کی زبان ہے، یہی دہلی کے خاص و خواص کی منطق ہے۔ جس موقع پر یہ محاورہ بولا جاتا ہے اس کے لیے مذکّر بولنا اور بھی باعث لطف ہو گیا۔

دوسرا لطیفہ

سنہ 73 یا 74ء کا ذکر ہے کہ اسی طرح ایک دفعہ کسی رئیس لکھنؤ وارد دہلی اور مرزا قربان علی بیگ سالک شاگرد رشید حضرت غالب سے بعض الفاظ کی کراہت، ثقالت اور لطافت کی چھیڑ ہوئی۔ رئیس لکھنؤ نے بر وقت ملاقات حضرت سالک سے ارشاد کیا کہ حضرت آپ کے دلّی والے الفاظ کریہ بولنے سے درگذر نہیں کرتے اور انھیں عین فصاحت سمجھ کر شربت کا سا گھونٹ پی جاتے ہیں۔ مرزا سالک نے فرمایا: بھئی وہ کون سے لفظ ہیں جن کی طرف آپ کا اشارہ ہے ذرا میں بھی تو سنوں۔ اگر در حقیقت کریہ الصوت اور کریہ المعنی ہیں تو میں بھی ان سے اجتناب کروں گا۔ رئیس صاحب نے فرمایا: دور کیوں جائیے ذرا کیچڑ ہی کے لفظ کو ملاحظہ فرمائیے، راے ثقیلہ کا کیسا کریہ اور ثقیل لفظ ان کی زبان پر چڑھا ہوا ہے۔ حضرت سالک نے پوچھا: آپ کے نزدیک اس لفظ کے بجاے کون سا فصیح اور موزوں لفظ ہے؟ کہنے لگے ارے حضرت کیچ بر وزن پیچ، دیکھیے کیسا چھوٹا سا اور سلیس لفظ ہے اور ہمارے کے یہاں یہی بولا جاتا ہے۔ حضرت سالک مسکرائے اور ذرا ستم ظریفی کو کام میں لا کر فرمایا کہ میری راے میں بھی ایسی راے ثقیلہ کو کل الفاظ سے نکال ڈالنا چاہیے لیکن ذرا اتنا اور بتا دیجیے کہ آپ کے ہاں سرین کے معنیٰ میں کس لفظ کا استعمال ہے؟ کیا آپ اس کی راے ثقیلہ کو بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں؟ یہ فقرہ سنتے ہی ایسے لیے گئے کہ منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور یہی کہتے بنی کہ در حقیقت ہمارے کے یہاں بھی یہی راے مثقّلہ بعض الفاظ میں اس قدر مستعمل ہے کہ جن الفاظ کو دہلی میں راے مہملہ سے بولتے ہیں ہم انھیں راے ثقیلہ سے استعمال کرتے ہیں گو یہ استعمال یہاں والوں کے کانوں کو اچّھا معلوم نہ دے مگر جس طرف جمّ غفیر ہو اسی طرف یہ فقیر نام کا امیر بھی ہے۔ مثلا مچھڑ، کنکڑ وغیرہ بہ راے ثقیلہ ہم جائز رکھتے اور فصیح سمجھتے ہیں، لیکن دہی برے، پکورے، پکوریاں وغیرہ بہ راے مہملہ ناجائز اور خلاف فصاحت جانتے ہیں گو آپ کے یہاں بہ راے ثقیلہ اچھا خیال کرتے ہیں۔ چلو ہم دونوں برابر رہے اور اب کسی کو بھی کسی پر اعتراض کی گنجائش نہیں رہی۔ مرزا سالک نے فرمایا: خیر یہی غنیمت ہے کہ آپ کی اڑ تو ٹوٹی کہ آپ نے دہلی اور لکھنؤ کو مساوات کا درجہ بخش دیا ورنہ صاحبان لکھنؤ تو دہلی کی زبان کو زبان ہی نہیں مانتے۔ جس روز یہ لطیفہ ہوا اس کے دوسرے ہی دن منشی بہاری لال مشتاق نے اکمل الاخبار میں یہ ساری کیفیت مع نام درج کر کے گلی گلی اور کوچہ کوچہ میں اس مناظرہ کی شہرت کر دی۔ اکثر لوگ اس لطیفہ کو حضرت غالب کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن یہ غلط ہے کیونکہ ان کا انتقال سنہ 69ء میں ہوچکا تھا اور یہ اس کے پانچ چھ سال بعد کا ذکر ہے۔ چنانچہ اس امر کی دہلی کے ایک مستند رئیس قرابت دار حضرت غالب سے بھی تصدیق ہو‏ئی۔ وہ فرماتے ہیں کہ "مجھے خوب یاد ہے اسی زمانہ میں میری شادی ہوئی تھی اور اکمل الاخبار نے اس کا خوب خاکہ اڑایا تھا"۔

اس میں شبہ نہیں کہ اہل لکھنؤ غیر مانوس، غیر متعارف، دقیق اور بے میل الفاظ کو مستعمل کر لینا ترقّی زبان کا باعث خیال فرماتے اور آورد کو داخل حسنات سجھتے ہیں۔ چنانچہ اسی وجہ سے جو لوگ زبان کی خوبیوں سے واقف ہیں ان کا دہلی اور لکھنؤ کی زبان کے متعلق یہ فیصلہ ہے کہ لکھنؤ کی زبان آورد کے بغیر نہیں بولی جاتی، قافیہ پیمائی اور جگت بازی اس کی جان ہے، لفظی رعایت اس کا دین و ایمان۔

دہلی کی زبان تکلّف سے دور، تصنّع سے نفور، تکلفات سے منزّہ اور نہایت شستہ ہے۔ اگر دہلی زبان کے حق میں شیراز ہے تو لکھنؤ اصفہان، جس طرح شیراز شاہان ایران اور زبان فصیح کا سب سے پہلا اور قدیم دار السلطنت ہے، اسی طرح اصفہان اس کے بعد، طہران سب سے اخیر وقت کا دار الخلافہ ہے۔

ہم نے اوپر لکھا ہے کہ زبان لکھنؤ میں غیر مانوس اور بے میل الفاظ کی بھرتی ہے، اب ہم کہتے ہیں کہ بے جوڑ الفاظ کی آمیزش سے بھی لکھنؤ کو کبھی انکار نہیں ہوا۔ چند الفاظ بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیے اور یہ سمجھ لیجیے کہ ہم نظیراً پیش کرتے ہیں نہ کہ اعتراضاً، ورنہ ؎

جو رو کر ابر کو دریا بہا دینے کا دعوی ہے

تو ہم کو اپنے رونے پر رلا دینے کا دعوی ہے

ہوا بمعنی خواہش، جناب احمد علی شوق ؎

گرد جنگل بیچ جنگل میں فضا ہے باغ کی

دیکھ لیں جنگل کو پھر دل کو ہوا ہے باغ کی

گرم خو بجاے تند خو۔ امیر ؎

خدا ہی باندھے ہوا کچھ ایسی کہ دل ہو اس گرم خو کا پانی

ہاتھ فگار کرنا بجاے ہاتھ زخمی کرنا، امیر ؎

ہاتھ گلچیں کے کیے باغ میں کانٹوں نے فگار

علی ہذا آنسو پاک کرنا، آنسو جوش پر آنا، آنکھ اٹھنے آنا، بلّی نانگھنا، آتشک نکلنا، آشنائی کھٹ کرنا، آگ ابلنا، اکھلا پن، آمد آمد پھیلنا، خشم بہنا، آنکھیں پڑ پڑ کرنا، تمھاری قضا پھڑ پھڑا رہی ہے، تلوار خچا خچ چلنے لگی، آنکھیں اگلنا، آنکھوں پاؤں بمعنی آنکھوں کے آگے پاؤں، کسی کے قدم بقدم چلنے کے بجاے پاؤں پر چلنا جیسا کہ حال میں ایک صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ "خدا امّت کے دل میں بھی ایسا ہی اثر ڈالے کہ اس فداے قوم کے پانوں پر چلے" وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح پوربی الفاظ نظم نثر میں مخلوط و آمیز ہوئے ہیں جو اوپر ظاہر کر دیے گئے ہیں۔ پس انھیں وجوہ سے ہم لکھنؤ کو خاص اردو یا ٹھیٹ اردو کا مرکز یا ماخذ نہیں کہہ سکتے، ورنہ باعتبار تصانیف و علم و عروض وغیرہ اس نے خاصی ترقّی کی ہے۔

لکھنؤ کی بحث تو ختم ہوئی اگر اس کو اردو کا مرکز نہ مانا جائے تو کچھ بیجا نہیں، اب لاہور کی طرف توجہ فرمائیے۔ یہ بات کچھ پوشیدہ نہیں ہے کہ زندہ دلان پنجاب نے بلحاظ ترقی مردہ دلان دہلی کو پرے بٹھا دیا ہے اور ان کو پست ہمّتی، سستی، کاہلی، بے علمی، باوجود افلاس لن ترانی نے رہا سہا کھو دیا ہے، مگر اس حالت میں بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سرشتی اثر اور اپنی مادری زبان کو کھو بیٹھے، یہاں کی آب و ہوا اور فطرتی مناسبت کو رو بیٹھے۔ ہاں اگر یہاں کی سر زمین، یہاں کی آب و ہوا، یہاں کے گلی کوچے، یہاں کی سی صفائی گلو، حسب مخرج اداے الفاظ کی قوّت اٹھ کر لاہور چلی جائے تو اس کا زبان اردو کے واسطے مرکز قرار دے لینا کچھ قابل اعتراض امر نہیں مگر جس حالت میں لکھنؤ مرکز ثابت نہ ہو سکا اور اس کی قدامت نے بھی مرکز نہ بننے دیا تو لاہور کی تو وہی مثل ہے کے آمدی کے پیر شدی۔ اس میں اردو کے رواج کو کے دن کے راتیں ہوئیں، سب سے پہلے منشی ہر سکھ راے صاحب نے جن کے ہاں منشی نول کشور جیسے اولو العزم اور لائق کارکن تھے۔ غدر سے آٹھ نو برس پہلے بر وقت الحاق پنجاب سنہ 1848ء و 49ء میں اخبار کوہ نور بزبان اردو نکالا اور وہ شمالی ہند کی نسبت ہمارے ہاں زیادہ خریدا گیا۔ 1856ء میں محکمۂ تعلیم قائم ہوا۔ مگر بعد از فتح دہلی جب لاہور پنجاب کا دار الخلافہ قرار پایا اور دہلی اس میں شامل ہو کر 1864ء میں لاہور گورنمنٹ کالج کی، 1866ء میں لاہور مشن کالج کی وہاں بنیاد پڑی۔ 1877ء میں دہلی کالج اجڑا اور ڈاکٹر لیٹنر صاحب کی کوشش سے 1882ء میں پنجاب یونیورسٹی با اختیار ہوئی تو ہر ایک محکمہ میں اردو کا تسلط زیادہ ہونے لگا۔

پنجابی اخبار سنہ 63ء میں نکلا، منشی محمد عظیم اور ان کی لائق اولاد نے زبان دہلی کا چسکہ ڈالنا شروع کر دیا۔ اس کے دو برس بعد یعنی سنہ 65ء میں اخبار انجمن پنجاب کا دور دورہ ہوا، اس کے مضامین کی نفاست، زبان کی سلاست، تصانیف پر معقول تقریظوں وغیرہ نے تمام پنجاب کو ایک دفعہ ہی اردو زبان کا فریفتہ اور شیفتہ بنا دیا۔

مولوی محمد حسین آزاد، منشی سید محمد لطیف جیسے اڈیٹروں نے چار چاند لگا دیے۔ اخیر میں مولوی سیف الحق ادیب اور میر نثار علی شہرت نے بھی زبان کی ترقی میں کچھ کسر نہ رکھی۔ انجمن پنجاب کے مشاعروں میں ڈاکٹر لیٹنر کی صدر مجلسی نے نیچری نظم کا شوق ڈالا۔ مولوی محمد حسین صاحب آزاد، خواجہ حالی مدظلہ العالی، خواجہ ضیاء الدین، مرزا ارشد، سیف الحق ادیب، میر نثار علی شہرت وغیرہ نے اشعار کا ولولہ پیدا کیا۔ سنہ 71ء میں سر رشتۂ تعلیم سے رسالۂ اتالیق پنجاب سر رشتہ تعلیم کے سرکاری اخبار نامی کے بجاے جو راے بہادر ماسٹر پیارے لال صاحب آشوب کی اڈیٹری اور حضرت آزاد کی سب اڈیٹری سے نکلتا تھا جاری ہوا اور اکثر اردو کے قابل قدر اخبارات جیسے رفیق ہند، رہبر ہند، شفیق ہند، اخبار عام وغیرہ نے ظہور پکڑا۔ دہلی کے خانہ خراب مضمون نگاروں کی بھی روزی نکل آئی، کرنل ہالرایڈ صاحب بہادر نے ڈائرکٹری کا چارج لیتے ہی دہلی کے اہل کمال کو نہایت اعزاز سے وہاں بلا لیا اور سر رشتہ تعلیم کی اردو تصانیف کو ایسا مانجھا کہ دہلی کی اصلی اور ٹکسالی زبان کا لطف آگیا۔ البتّہ ان کے بعد سائم صاحب کے زمانہ میں جس قدر جدید تصانیف ہوئی وہ بلحاظ زبان قابل اعتراض رہی اور ابھی تک یہ نقص باقی ہے۔ جس طرح شاہی زمانہ میں دہلی کے باکمال و اہل خاندان لکھنؤ چلے گئے تھے اسی طرح غدر کے بعد بتلاش روزگار دہلی کے اکثر اہل زبان پنجاب میں اور زیادہ تر خاص لاہور میں دار الصدر ہو جانے کے باعث عاریتاً جا رہے تھے۔ ان کے دم سے اردو کا زیادہ رواج ہوا، اخباروں کی اڈیٹری ان لوگوں نے کی، نامہ نگار یہ بنے، کاتب یہ بنے، ناولوں کی زبان ان لوگوں نے درست کی اور ہر طرح سے لاہور کی اردو کو عیوب سے پاک کیا۔ چونکہ اہل پنجاب میں مادّۂ اخذ خداداد ہے، انھوں نے اس طرف توجہ کرتے ہی صاف و شستہ اردو لکھنی شروع کردی لیکن خاص خاص محاورات و اصطلاحات اور علی الخصوص لب و لہجہ میں بعد مسافت و فرق سکونت کے باعث بازی نہ لے سکے، جس کی وجہ سے ہم لاہور کو مرکز اردو کہنے میں متامّل ہیں۔ البتّہ اگر حیدرآباد دکن کی نسبت یہ خیال کیا جاتا تو وہ ایک حد تک درست اور بجا تھا، کیونکہ اول تو دہلی کے مغلیہ خاندان کے ساتھ یہاں کے شرفا و نجبا، اہل زبان ارکین سلطنت وہاں جا بسے تھے۔ عالم گیر نے مرتے دم تک دکن نہ چھوڑا، اس کی فوج، اس کے سپاہ سالار، اس کے وزرا، امرا اس کے دم کے ساتھ رہے۔ چنانچہ اب تک وہاں کی مستورات میں دہلی کے ٹھیٹ محاورے، دہلی کے رسم و رواج، عورتوں کے قدیمی عقائد موجود پائے جاتے ہیں اور مرد تو دہلی الاصل تھے ہی۔ اس کے علاوہ وہاں کے بادشاہ نے خدا اسے سلامت رکھے اردو کی وہ سرپرستی اختیار کر رکھی ہے کہ کوئی حامیِ اردو اس سے لگّا نہیں کھا سکتا۔ اردو کی گرتی ہوئی زبان کو اس نے سنبھالا۔ قدیم و جدید محاورات زبان کا مخزن اس نے جمع کرا دیا۔ ہر ایک علم و فن کی تصنیف کا ذخیرہ اس نے لگا دیا، بڑے بڑے اہل کمالوں کو فراہم کر لیا، گویا ڈوبتی ہوئی ناؤ کو ابھار لیا۔ اردو کے شعرا کا وہاں جمگھٹا ہے، اردو کے انشا پردازوں کا وہاں ہجوم ہے، اہل زبان وہاں جمع ہیں اور مقلّد زبان وہاں۔ اس کے ما سوا سلطان دکن خلد اللہ ملکہ نے خود بھی اردو نظم کی طرف توجہ فرمائی۔ کلام الملوک ملوک الکلام کی زندہ مثال دکھائی۔ سر رشتہ تعلیم و دفاتر میں اسی کو شاہی زبان ٹھہرا کر جگہ دی۔ اردو اخبارات اور رسالوں کی خریداری سے امداد فرمائی، مصنّفوں کو وظائف انعام و اکرام دے دے کر ان کی محنت کی داد دی اور ما یحتاج سے مستغنی فرما کر اظہار خیالات و ترقّی زبان و علوم و فنون کا موقع دیا۔ نہ کہ جس طرح بعض مقامی گورنمنٹوں اور اردو کی مخالف ریاستوں نے تعصّب کو کام فرما کر اسے دودھ کی مکھی طرح نکال کر پھینک دیا یا پھینک رہی ہیں۔ اس سلطنت نے بھی ایسا ہی کیا ہو۔ دکن کے خمیر میں چھ سو برس سے پہلے سلطان محمد عرف الغ خان نے دلّی شہر کو اجاڑ کر یہاں کی خو بو، عادت و خصلت کا وہاں ڈھچر ڈال دیا تھا مگر اردو زبان کے پیدا ہوتے ہی رؤساے دکن نے اس کے قالب میں ایک تازہ روح پھونک دی اگرچہ اردو شاعری کا چرچا اب سے 84، 85 برس پیشتر عالی جناب نواب سکندر جاہ بہادر و نواب فلک انتساب ناصر الدولہ بہادر کے عہد میں جو تقریباً 1244-45 ہجری کا زمانہ ہے، راجۂ راجایاں مہاراجہ چندو لال صاحب مدار المہام ریاست حیدرآباد کے دم سے خوب زوروں پر رہا۔ بلکہ علم ادب، علم تصوّف، علم تاریخ، علم اخلاق پر بھی دیوان صاحب کی نہایت توجہ رہی جس کے سبب سے دہلی کے نامی شعرا میں سے شاہ نصیر شیخ وزیر علی مسرت، وجیہ الدین منیر اور ان کے بعد دیگر شعرا بھی پہنچے، حتی کہ استاد ذوق سے بھی یہ ذکر ایک مقطع میں لائے بغیر نہ رہا گیا چنانچہ فرماتے ہیں ؎

گرچہ ہے ملک دکن میں ان دنوں قدر سخن

کون جائے ذوق پر دلّی کی گلیاں چھوڑ کر

مگر اب کے اور جب کے زمانہ اور زبان میں بہت بڑا فرق ہے۔ اس وقت وزیر دکن کو شوق تھا، خود بھی شاعر تھے، اور شاداں تخلّص فرماتے تھے، مگر اب شاہ دکن کو خود شوق ہے اور ان کی بدولت موجودہ وزیر دکن بھی جو اسی سخن سنج، سخن فہم خاندان کی یادگار ہیں، وہاں کے شعراے ہم عصر میں سبقت لے گئے ہیں۔ گو اپنا تخلّص شاد اپنے کلام و دیگر تصانیف میں درج فرماتے ہیں مگر اس تخلّص کو اسم با مسمی بنا کر تمام دکن و اہل جوہر کا دل شاد اور ان کا گھر خوشی و خرّمی سے آباد کر رکھا ہے، ان وجوہ پر خیال کر کے ہم لکھنؤ پر بھی حیدرآباد دکن کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ لکھنؤ کی زبان کا سرپرست دنیا سے اٹھ گیا، وہاں کی ریاست و سلطنت مٹ مٹا گئی، صرف نام ہی نام باقی ہے۔ مگر حف نظر چشم بد دور ملک دکن حرسہا اللہ عن الشرور و الفتن کی اسلامی ریاست زندہ و سلامت موجود ہے اور تا قیامت رہے گی جس نے مامون رشید کا علمی زمانہ بھلا دیا، بغداد و قرطبہ کا لطف دکھا دیا، بلکہ اس تھوڑے سے زمانے میں خلفاے عبّاسیہ کی سلطنت سے بڑھا دیا اور بڑھا رہی ہے۔ اگر زمانہ ترقی کے موافق اردو کا مرکز کہہ سکتے ہو تو بلحاظ قدامت، باعتبار بول چال و سرپرستیِ زبان اردو حیدرآباد دکن کو کہو اور ان سے اس زبان کی پختگی، قیام اور روز افزوں ترقی کے واسطے مدد لو کیونکہ اس ریاست کا والی اردو زبان کا جوہری و مبصّر بلکہ نقّاد ہے اور اسی وجہ سے ہر ایک اہل زبان کی زبان پر حیدرآباد حیدرآباد ہے۔

مرکز زبان کے متعلق تو جو کچھ محاکمہ کرنا تھا وہ کر چکے اب ذرا اس مضمون کو بھی پڑھ کر دیکھتے ہیں جس میں اس کے متعلق لمبی چوڑی بحث ہوئی ہے۔

یہ مضمون حضرت وجاہت جھنجھانوی مالک رسالۂ اصلاح سخن نے بزم اردو کے جلسۂ منعقدہ انیس مئی 1910ء میں پڑھا تھا اور سب سے پہلے ہمارے محترم دوست مولوی محبوب عالم صاحب نے اپنے معزّز و با وقعت روزانہ پیسہ اخبار مطبوعہ تیسری جون سنہ مذکور میں چھاپا تھا۔ اس کے بعد رسالۂ اصلاح سخن و فصیح الملک میں ہماری نظر سے گذرا اور معلوم ہوا کہ دیگر رسائل میں بھی یہ بحث چھڑی ہے، مگر ہم اپنی بیماری، عدم فرصت و مقدّمات دیوانی کی پیروی سے مجبور تھے ورنہ کچھ نہ کچھ ہم بھی اپنی راے ظاہر کرتے۔ اب چند دوستوں کے سر ہو جانے سے رطب و یابس جیسا کچھ خیال میں آیا لکھنا پڑا۔

اس میں کلام نہیں کہ حضرت وجاہت نے جو کچھ لکھا بہ نظر اصلاح کہ یہ ان کا کام ہی ہے نیک نیتی سے لکھا اور زمانۂ حال و موجودہ رفتار کے موافق بظاہر بہت کچھ ذہن لڑایا، لیکن اس بحث کے اٹھانے میں انھوں نے غالباً اپنی ناواقفیت کے سبب تمثیلوں تک میں دھوکا کھایا، اگر غلطی نہیں کی تو سہو ضرور ہوا اور یہ غلط فہمی کتب لغات کے حال و قدیم محاورات میں فرق نہ کرنے کے باعث واقع ہوئی۔ مثلا انھوں نے لکھا ہے کہ اہل دہلی زیادہ محبّت کے واسطے "جان چھڑکنا" بولتے ہیں اور آگ لگ جانے کے واسطے "پھول پڑا" استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کی اصل عبارت یہ ہے کہ "وہ زمانہ دور نہیں کہ دہلی و لکھنؤ کے ایجاد کردہ الفاظ لوکل بولی سے زیادہ وقعت نہیں رکھیں گے۔ مثال کے طور پر دہلی کے ایک آدھ محاورہ کا ذکر کیا جاتا ہے، جب کسی کو کسی سے زیادہ محبت ہو تو دہلی والے کہا کرتے ہیں کہ فلاں آدمی اس آدمی پر جان چھڑکتا ہے، جان کیا ہوئی گویا گلاب یا کیوڑے کا عرق ہے۔ اب علمی دنیا کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ دہلی یا لکھنؤ کے اتّباع کی وجہ سے بے حد محبت کرنے کا مفہوم جان چھڑکنے سے ادا کرے، سیدھی بات کیوں نہ کہی جائے کہ ہم اس آدمی سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔"

اوّل اس فقرے کے پہلے حصے کا جواب ملاحظہ فرمائیے کہ "دہلی اور لکھنؤ کے ایجاد کردہ الفاظ لوکل بولی سے زیادہ وقعت نہیں رکھیں گے"۔ ہم کہتے ہیں یہی الفاظ روز بروز زیادہ ترقّی کریں گے اور ہر علم و فن کے الفاظ اسی زبان میں بڑھا کر اسے علوم و فنون کے لحاظ سے بھی زیادہ مکمل بنائیں گے۔ کیونکہ ان کی سادگی، سلاست، جامعیت، وسعت ایسی نہیں ہے کہ وہ دیگر زبان کے الفاظ تراش و خراش پیدا کر کے اپنے ساتھ شامل نہ کر لے۔ اردو زبان میں ہر ایک زبان کی اسی طرح کھپت ہے جس طرح شیخوں کی ذات کا ہر ایک مسلم و نو مسلم کے واسطے دروا‎زہ کھلا ہوا ہے۔ چنانچہ ایک شاعر کا قول ہے ؎

سیّد اکل کھرے ہیں میاں کائنات میں

سب کی سمائی ہوتی ہے شیخوں کی ذات میں

کوئی زبان، کوئی علم، کوئی فن اپنی خاص خاص اصطلاحات و محاورات سے خالی نہیں، جن کاموں میں جس علم اور جس فن کی ضرورت پڑتی ہے اس میں انھیں کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ انشا پردازی کا جزو اعظم، قصّوں، ناولوں، ڈراموں، رزمیہ داستانوں، بزمیہ افسانوں کی جان اصطلاحیں اور محاورے نہیں ہیں تو اور کون سی بات ہے جو روتوں کو ہنساتی، ہنستوں کو رلاتی، لومڑیوں کو شیر بناتی، سنگ دلوں کو رحم دل کر دکھاتی، بخیلوں کو سخاوت کی طرف توجہ دلاتی، قوموں میں ہمدردی پھیلاتی، قومی قوّت بڑھاتی، سخیوں کو ان کی حیثیت سے زیادہ دریا دلی پر آمادہ کر دیتی ہے۔ صرف زبان اور محاورے ہی تو ہیں جو ہر ایک بیان کا سماں باندھ کر لوگوں کے دلوں پر قابو کرا دیتے ہیں۔

کیا آپ نے یہ نہیں سنا کہ یورپ میں جس قدر نامی و گرامی مقرّر یعنی اسپیکر ہوئے ہیں اور جس قدر بڑے بڑے انشا پرداز ہیں ان سب نے اپنی اس قوّت کو زیادہ تر ناولوں کے مطالعہ سے بڑھایا ہے اور وہاں ناول خاص کر اسی غرض سے زیادہ پڑھے جاتے ہیں کہ ان میں سے زود اثر، پر اثر، دل گداز، ہیبت افزا، رعب نما، معنی خیز وغیرہ ہر قسم کے فقرے یا الفاظ چن چن کر اپنی زبان پر چڑھائے اور بر وقت ضرورت حسب موقع کام میں لائے جائیں۔ یہ باتیں صرف ٹکسالی زبان کو حاصل ہوتی ہیں اور اسی میں یہ جادو بھرا ہوا ہے۔

رہے علمی اور فنونی الفاظ یا اصطلاحیں جس قدر اور جس وقت میں جس علم یا جس فن کا دور دورہ ہوا اسی کے واسطے سینکڑوں اور ہزاروں الفاظ بن گئے بلکہ ان میں سے بھی بعض اصطلاحیں لے کر روز مرّہ میں داخل کر لی گئیں، مثلاً کھٹائی میں ڈالنا سناروں کی اصطلاح ہے مگر اردو میں تعویق کے موقع پر استعمال ہونے لگی۔ علی ہذا انگرکھے کا بند، تیر بہدف، لیس ہونا بمعنی تیار و مستعد ہونا، کتر بیونت، پاپڑ بیلنا، چھکے چھوٹنا وغیرہ ہزاروں اصطلاحیں اور محاورے ایسے ہیں کہ وہ اہل حرفہ، اہل پیشہ، اہل فن، اہل علم وغیرہ کے خاص خاص علوم و فنون سے استنباط کئے گئے ہیں۔ علم ریاضی، حساب، علم جبر و مقابلہ، اقلیدس، تاریخ، جغرافیہ، علم مثلّث، لوکارثم، مساحت وغیرہ کے ترجمے کیا حسب ضرورت نہیں ہوئے اور اب سائنس و طبیعیات کے کیا نہیں ہو رہے ہیں؟ اسی طرح فقہ، حدیث، علم کلام، علم منطق وغیرہ کے ترجموں کو کیا اہل زبان نے چھوڑ دیا ہے؟ خاص ہماری دہلی میں خان بہادر منشی ذکاء اللہ مرحوم نے کون سے علم کا ترجمہ نہیں کیا۔ ایل ایل ڈی مولوی نذیر احمد صاحب نے عربی ترجموں سے کون سی دینی خدمت نہیں کی، اردو میں منطق لکھی اور مضامین کے بیسیوں رسالے شا‏ئع فرمائے۔ مولوی کریم بخش صاحب نے جبر و مقابلہ کا کیسا ترجمہ کیا۔ مولوی مملوک علی نے عربی سے اقلیدس کا ترجمہ کیسا کیا۔ مولوی امام بخش صہبائی نے قواعد اردو کیسی بنائی؟ ماسٹر رام چندر نے ریاضی میں کیسا نام پایا کہ یورپ تک دھوم مچ گئی۔ ان کی کتابیں تذکرۃ الکاملین، رسالۂ خواب، سریع الفہم وغیرہ اور بہت سے رسالے ہماری نظر سے گذرے۔ مولوی نواب قطب الدین خاں مرحوم نے کیا مشکوۃ وغیرہ کا ترجمہ نہیں کیا؟ کیا مولوی نذیر حسین صاحب محدّث دہلوی نے، مولوی عبد الرب واعظ دہلوی نے، مولوی حفیظ اللہ خاں صاحب دہلوی نے اردو زبان کی دینی خدمت کچھ کم کی؟ ایل ایل ڈی مولوی ضیاء الدین صاحب نے کیا اصول علم طبعی کے رسالے نہیں لکھے؟ کیا مولوی عبد الحق صاحب نے اردو میں تفسیر حقّانی نہیں لکھی؟ کیا مولوی رفیع الدین صاحب نے لفظی اور مولوی شاہ عبد القادر صاحب نے قرآن شریف کا عام فہم اردو با محاورہ ترجمہ نہیں کیا؟ کیا شمس العلماء مولوی نذیر احمد صاحب کا ترجمۂ قران مجید مقبول خاص و عام نہیں ہوا؟ کیا ان باشندگان دہلی کو ان ترجموں کے واسطے لاہور، لکھنؤ یا دیگر امصار و دیار سے الفاظ لانے پڑے؟ کیا سر رشتۂ تعلیم پنجاب کے دہلوی مترجموں نے تعلیمی کتابوں کو اس زبان میں انگریزی سے نہیں ڈھالا؟ کیا مولوی کریم الدین نے کوئی اور زبان سر رشتۂ تعلیم کی تصانیف میں برتی؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ کرنل ہالرائڈ صاحب بہادر نے اپنے سر رشتہ کی کتابوں کا ترجمہ کس طریقہ سے ٹھیٹ اردو میں کرایا؟ اگر نہیں معلوم تو ہم سے سن لیجیے۔ ہم بھی یہ کام بک ڈپو کے نائب مترجم رہ کر کر چکے ہیں، وہ اوّل تو انگریزی دانوں سے جس کتاب کا ترجمہ مقصود ہوتا کراتے۔ جب وہ کر چکتے تو ایسے دہلوی اہل زبانوں کو دیتے جو مطلق انگریزی نہیں جانتے تھے اور فرماتے کہ اس کو اپنی بول چال کے موافق بنا دو۔ انگریزی سے اکثر ترجمے راے بہادر ماسٹر پیارے لال صاحب یا ماسٹر چندو لال صاحب یا مولوی محمد یوسف مرحوم کیا کرتے۔ ان کی نظر ثانی کبھی مولانا آزاد صاحب، کبھی خواجہ ضیاء الدین صاحب مرحوم، کبھی خواجہ حالی مدظلہ العالی، کبھی مولوی مرزا اشرف بیگ خاں صاحب، کبھی مولوی محمد سعید صاحب، کبھی بندہ سید احمد، کبھی مرزا ارشد گورگانی، کبھی سیف الحق ادیب، کبھی مولوی مرزا بیگ خاں صاحب دہلوی وغیرہ کیا کرتے تھے۔ راے بہادر ماسٹر پیارے لال صاحب نے جو کلاں تاریخ انگلستان یا دربار قیصری کا ترجمہ کیا ہے، بھلا کوئی دوسرا کر تو لے۔ جس وقت لارڈ لٹن کی زبردست، معنی خیز، پہلو دار، مغلق اور زبردست اسپیچ کے ترجمہ کا موقع آیا تو بندہ بھی سنہ 80ء میں اس وقت وہیں موجود تھا اور کچھ اس نے بھی ماسٹر صاحب کے حکم سے اسے دیکھا تھا۔ انصاف یہ ہے کہ ماسٹر صاحب سا لائق آدمی ہو اور نہ یہ ترجمہ قابل تعریف کیا جائے۔ ان کے علاوہ قصص ہند حصّہ اوّل وغیرہ بھی آپ ہی کی تالیف ہے۔ ان کتابوں میں اگر دہلی کے ایجاد کردہ لفظ نہیں ہیں تو کیا کرانے جھنجھانے سے یہ لڈوے کی پال آئی ہے؟ اگر یہ لوکل الفاظ مانے جائیں تو اور بھی زیادہ قابل وقعت ہیں کیونکہ خواص ہر جگہ محدود ہوا کرتے ہیں اور عوام غیر محدود ؎

سب مذاہب میں یہی ہے نہیں اسلام میں خاص

کہ جہاں عام ہے ہوتا ہے وہاں عام میں خاص

ساغر دل کی تو واقف نہیں کیفیت سے

دیکھ عکس رخ ساقی ہے اسی جام میں خاص

اب ذرا اس مثال کی طرف رخ فرمائیے جس کے سبب سے محاورات دہلی پر بائی کاٹ کا حکم لگایا گیا ہے اور ساتھ ہی اس کا مفہوم بھی اس طرح بتا دیا ہے: "جب کسی کو کسی سے زیادہ محبت ہو تو دہلی والے کہا کرتے ہیں کہ فلاں آدمی اس آدمی پر جان چھڑکتا ہے، جان کیا ہے گویا گلاب یا کیوڑے کا عرق ہے"۔ اس محاورے کا لطف اور اس کی عدم واقفیت تو ہم آگے چل کر بیان کریں گے لیکن پہلے انھیں کی عبارت میں سے دو ایک فقرے پیش کر کے الزامی جواب دیتے اور ان کی طرف سے یہ مصرع پڑھتے ہیں۔ مصرع

میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

"کانوں کو مزا نہیں دیتے"، کان نہ ہوئے کوئی زبان ہوئی جو ذائقہ سے تعلق رکھے۔ "صورتیں فسانہ ہوگئیں"، صورتیں نہ ہوئیں کوئی ذکر اذکار ہوئے جو فسانہ سے نسبت دی گئی۔ "دنیا کی ہر چیز انقلاب پسند ہے"، لفظ پسند کو ملاحظہ فرمائیے اور ہر چیز کو جو ذی روح بن کر انقلاب پسند فرماتی ہے۔

خیر ان باتوں کو جانے دیجیے، جان چھڑکنا اوّل تو یہ فرمائیے کہ آپ نے اپنے کانوں سے سنا ہے؟ کہاں سنا ہے؟ اور کس سے سنا ہے؟ مردوں سے یا عورتوں سے یا صرف کتب لغات میں دیکھا ہے؟ یا کسی استاد کے کلام میں نظر پڑا ہے؟ بے شک جان چھڑکنا بولا جاتا ہے مگر عورتوں میں اور وہ بھی اولاد یا مثل اولاد کسی نہایت قریبی رشتہ دار کی محبّت میں، نہ کہ عام محاورہ ہے اور ہر جگہ فرط محبّت کے موقع پر بولا جاتا ہے۔ اگرچہ عورتیں اس کی اصلیت سے واقف نہیں مگر اس موقع کے واسطے اس سے بہتر اور پر اثر لفظ ملنا مشکل ہے۔ جان کے لغوی معنی روح ہیں اور اطبّا کی اصطلاح میں جوہر لطیف یا بخار لطیف۔ ان دونوں صورتوں میں جان کا سیّال ہونا پایا جاتا ہے اور سیّال چیز کا چھڑکنا ممکنات سے ہے اور اس جگہ فرط محبّت سے جان نثار کرنے کے معنی ہیں۔ اب ایک اور طرح سے سنیے، اردو محاورہ میں جان بمعنی خون بھی آجاتا ہے جیسے خوف کے موقع پر جہاں دم خشک ہونا بولتے ہیں وہاں جان سوکھنا بھی استعمال کرتے ہیں اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، آپ نے کام سے جان چرانا بھی سنا ہوگا، بھلا اس جگہ جان نہ ہوئی کوئی گٹھڑی یا جوکھوں ہوئی کہ کوئی چرا کر لے جائے گا، حالانکہ صرف اسی کی ذات کے متعلق بولتے ہیں جو جان بوجھ کر کام سے بچتا ہے

اب دیکھیے یہ گلاب کا عرق ہے یا کیوڑا۔ اور لیجیے جانفشانی فارسی کا محاورہ ہے اور اسی کا یہ ترجمہ ہے۔ اہل فارس پر آپ کا اس موقع کے لیے فرمائیے کیا اعتراض ہے؟ اسی جگہ آپ فرماتے ہیں "کہ اب علمی دنیا کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ دہلی یا لکھنؤ کے اتّباع کی وجہ سے بے حد محبّت کرنے کا مفہوم جان چھڑکنے سے ادا کرے، سیدھی بات کیوں نہ کہی جائے کہ ہم اس آدمی سے بے انتہا محبّت کرتے ہیں"۔ اگر آپ بے انتہا محبت یا صرف کسی کے ساتھ محبت کرنے کے دوسرے معنی پر توجّہ فرماتے تو ہرگز ہرگز یہ لفظ زبان پر نہ لاتے، ایسی ہی باتیں آدمی کو پابندیِ زبان سے آزادی حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ہمارے نزدیک علمی دنیا کو سب سے زیادہ زبان دانی کی ضرورت ہے ورنہ مفہوم کچھ ہوگا اور سمجھا کچھ جائے گا۔

اب دوسرے محاورے اور لفظ کو بھی ملاحظہ فرمائیے! آپ ارشاد کرتے ہیں کہ "اسی طرح کسی کے گھر میں آگ لگ جانے کا مفہوم اہل دہلی یوں ادا کرتے ہیں کہ فلاں شخص کے گھر میں پھول پڑا، آگ نہیں کہتے، اس کو وہ لوگ بد شگونی سمجھتے ہیں۔ یہ اچھا پھول پڑا کہ سارا گھر جل کر خاک ہو گیا اور یہاں خیر سے انگارے کو ابھی تک پھول ہی سمجھے بیٹھے ہیں۔ صاف صاف بات کیوں نہ کہی جائے کہ فلاں آدمی کا گھر جل گیا۔" مہربانی فرما کر اوّل تو یہ ارشاد کیجیے کہ آپ کبھی دہلی میں آئے بھی ہیں یا نہیں؟ اگر آئے ہیں تو آپ کو بگوش خود اس محاورے کے سننے کا اتفاق ہوا ہے یا نہیں؟ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے کسی کتاب یا کبھی کسی شعر میں دیکھ لیا ہے اور آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس محاورے کو عورتیں بولتی ہوں گی یا مرد؟ اگرچہ آپ کا یہ فقرہ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ اس کو وہ لوگ بد شگونی سمجھتے ہیں، یعنی یہ محاورہ ہو نہ ہو عورتوں کا ہو، کیونکہ یہی فرقہ اپنی زبان سے ایسے الفاظ نہیں نکالتا جس سے بد شگونی ہو۔ مثلاً "خیر سے" آپ نے ہی کئی جگہ برتا ہے۔ "خدا کی سنوار" بجاے خدا کی مار آپ نے سنا ہی ہوگا۔ "تمھیں خدا کی نیکی" بھی گوش زد فرمایا ہوگا۔ "وہ جمی جم گھر میں ہیں" یہ بھی کبھی نہ کبھی ضرور گوش آشنا ہوا ہوگا۔ اسی طرح پھول پڑنا بھی ظاہر کر رہا ہے کہ اس کو عورتیں ہی بولتی ہوں گی، مگر آپ نے اپنے ثبوت میں مرد و زن سب کو لے لیا اور بہت بڑی اپنی نا واقفیت ظاہر فرمائی۔ اب ہم سے سنیے۔ دہلی میں کوئی بھی اس محاورے کو اب نہیں بولتا اور نہ پہلے یہ محاورہ شہر کے اندر بکثرت بولا جاتا تھا۔ البتّہ قلعۂ معلّیٰ میں بیگماتوں نے اس کا کسی قدر استعمال کر رکھا تھا، لیکن عام آگ لگنے کے واسطے نہ تھا۔ اگرچہ رنگین کے ایک شعر میں یہ محاورہ موجود ہے مگر اس میں جو لفظ گوئیاں آگیا ہے یہ اس امر میں شبہ ڈالتا ہے، کیونکہ گوئیاں خاص پوربی محاورہ ہے جو آج تک دہلی کیا اطراف دہلی میں بھی نہیں بولا جاتا، وہ شعر یہ ہے ؎

بھول کر بھی جو کسی اور کے گھر بھول پڑے

(پہلا مصرع سر تا سر محاوروں سے پر ہے اور خاص کر بھول پڑے تو ہر ایک کی سمجھ میں بھی مشکل سے آئے گا۔)

تو الہی کرے گوئیاں مرے گھر پھول پڑے

عجب نہیں جو یہ شعر انشاء اللہ خاں کا ہو اور اگر بالفرض رنگین کا مانا جائے تو اس زمانہ کا ہوگا جس زمانہ میں سعادت یار خاں رنگین لکھنؤ میں جا کر اپنے پگڑی بدل بھائی انشاء اللہ خاں کے ہاں ٹھہرا کرتے تھے اور باہم دونوں صاحبوں کی ریختیوں کا موازنہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن رشک لکھنوی نے اس کو صاف کر دیا ہے چنانچہ اس کا شعر ہے ؎

اہل جنّت کو ہو جنّت پر جہنّم کا خیال

پھول اگر پڑ جائے میری آہ آتش بار کا

اس سے ہماری یہ غرض نہیں کہ کسی شاعر نے بھی نہیں باندھا۔ جن لوگوں نے مردانہ زبان کا نام ریختہ اور بیگماتی بول چال کا نام ریختی رکھ چھوڑا تھا، انھوں نے اس زمانہ میں شاذ و نادر باندھا ہے۔ اہل لکھنؤ میں سے بحر اور انشا نے صرف ایک ایک شعر میں استعمال کیا ہے اور اہل دہلی میں سے نکہت اور رنگین نے۔ ان کے سوا ذوق، ظفر، مونس، درد، غالب وغیرہ کسی نے بھی اس کا استعمال نہیں فرمایا۔ اگر یہ محاورہ مروّج خاص و عام ہوتا تو کوئی بھی اسے نہ چھوڑتا، اہل لغت کو چونکہ ہر زمانہ کا محاورہ دکھانا منظور تھا انھوں نے بے شک داخل لغات کر دیا، محاورہ کی خوبی میں شبہ نہیں، لیکن آپ نے بے وقت مثال دی۔

پھول کے لفظ پر آپ نے طعنہ مارا تھا یہاں وہ طعنہ بیکار ہوا بلکہ آپ نے جو لکھا ہے کہ "یہاں خیر سے انگارے کو ابھی تک پھول ہی سمجھے بیٹھے ہیں۔" سبحان اللہ کیا اچھا خیال ہے، انگارے کی تعریف بھی جناب کو معلوم نہیں، کیا انگارا اڑ کر جا سکتا ہے؟ یا انگارا اڑ سکتا ہے؟ اگر آپ ان الفاظ کے محل موقع سے واقف ہوتے تو اس جگہ چنگاری، شرارہ یا آگ کا پتنگا تحریر فرماتے۔ دیکھیے اہل زبان اور مقلّد زبان میں کس قدر فرق ثابت ہوا۔ اب دوسری طرح سے اس کا جواب ملاحظہ فرمائیے، جب کوئلے جلتے وقت چٹختے ہیں تو ان کو آپ کیا فرمائیں گے؟ کیا ان کے روشن ذروں کو پھول یا چنگاری یا پتنگے سے تعبیر نہیں کریں گے؟ کبھی آپ نے چراغ کو بھڑکتے ہوئے دیکھا ہوگا تو اس وقت جو روشن پتنگا سا یا اس کی جلتی ہوئی ٹیم نیچے گرتی ہے تو اسے بھی پھول کہتے ہیں یا نہیں؟ کیا توا جس وقت جلتے میں جگمگ جگمگ کرتا ہے تو اسے توا ہنسنا کسی وجہ سے کہتے ہیں یا نہیں؟ آتش بازی کے پھول تو آپ نے ضرور سنے ہوں گے، ان کو انگارا کیوں نہیں کہا؟ پھلجھڑی، ہتھ پھول، مہتابی، انار، جائی جوئی، بتاسے وغیرہ آتش بازی میں نظر اقدس سے گذرے ہوں گے۔ ان میں سے انگارے اچھلتے ہیں یا پھول نکلتے ہیں؟ تیسری مثال اور لیجیے، منہ سے پھول جھڑنا کیوں بولتے ہیں، منہ نہ ہوا کسی باغ کا بوٹا یا گل گلزار وجاہت ہوا۔

ہم نے آپ کے پہلے اعتراض اور اس کی مثال کے متعلق آپ ہی کے فقروں سے تھوڑا سا الزامی جواب دیا تھا، اب آپ اس کی نسبت اور نظیریں بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔ زبان دینا کس معنی میں آپ خود بولتے ہیں، کیا زبان کی بوٹی کاٹ کر دے دی جاتی ہے؟ یا زبان نکال کر حوالہ کر دی جاتی ہے؟ یہ وہ لفظ ہے جو آپ کے روزمرّہ میں داخل ہے۔ سانچ کو آنچ نہیں، کیا سانچ کوئی مجسّم چیز ہے، یا کوئی درخت یا از قسم نباتات ہے؟ اسی طرح پیسہ کی آنچ، کیا پیسہ کسی قسم کی آگ ہے؟ تلوار کی آنچ، کیا تلوار کوئی شعلہ ہے؟ آنچ آنا بمعنی صدمہ پہنچنا بھی آپ نے سنا ہی ہوگا، چنانچہ کہا کرتے ہیں کہ تمھارے بچے کو ذرا آنچ آئے تو میرا ذمّہ۔ اب پھول کے چوتھے معنی اور لیجیے کہ پتّی یا برگ کے معنی میں بھی یہ لفظ مستعمل ہے، مثلاً سوکھی میتھی کے دو پھول ڈال دینے سے مچھلی اڑ جاتی ہے، یعنی خوشبودار اور خوش ذا‏ئقہ ہوجاتی ہے۔ پوربی زردے یعنی تمباکو کے دو پھول بھی سر پھرا دیتے ہیں، بھنگ کے دو پھول مانگ کر نشہ جما لو، ابھی سیاہی پھیکی ہے دو پھول اور ڈال دو۔ پانچویں اور لیجیے، برص یا کوڑھ کے دھبے اور دو آتشہ شراب کو بھی پھول کہتے ہیں۔ چھٹے معنی بھی ملاحظہ فرمائیے، کانسی دھات کو بھی پھول کہتے ہیں۔ پھول کا کٹورا، پھول کی تھالی سینکڑوں دفعہ سنی ہوگی۔ معلوم نہیں یہ کس درخت اور کس موسم کے پھول ہیں؟ علی ہذا القیاس اس قسم کے سینکڑوں اور بہتیرے استعارے یا محاورے ہیں جو ہر ایک زبان میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ زبان کی خوبی انھیں باتوں پر موقوف ہے۔ اور تو اور گنواری یعنی ادنی سے ادنی دہقانی زبان بھی ایسے استعاروں اور محاوروں سے خالی نہیں پائی جاتی، کجا کہ شہری اور خاص کر ٹکسالی زبان ان سے معرّا ہو یا بائی کاٹ یعنی متروک الاستعمال کر دی جائے۔ گنوار لوگ بیوقوف کو بچھیا کا باوا کہتے ہیں، کیا وہ در حقیقت گاؤ زادہ ہوتا ہے؟ پنجاب کے عوام الناس نا فہم کو ڈھگا کہتے ہیں، کیا وہ فی الواقع بیل ہوتا ہے؟ گدھا اسی معنی میں تمام ہندوستان کیا عرب تک میں مستعمل ہے، آپ نے سنا ہوگا الکاتب کالحمار۔ علی ہذا ہری چگ خود غرض کے حق میں، لاد جانا دودھ سے ہٹ جانے کے موقع پر، پسر چرانا پچھلی رات سے ڈھور چرانے لے جانے کو، بیس بسوے بجاے غالباً، سو بسوے یا بیسوں بسوے بجاے بالضرور، شرطی، بیچ کھیت بجاے علانیہ، بیٹی کا باپ بجاے نامرد یا بودا، ٹھور رکھنا بجاے کھیت رکھنا، کام تمام کرنا۔ سوت کے بنولے کر دیے، بنا بنایا کام بگاڑ دیا، قدر گھٹا دی۔ جیوڑی سے گردن گھسنی، تمام عمر نباہ کرنا۔ لٹیا ڈبو دی، بات بگاڑ دی۔ بھاڑے کا ٹٹو، جو بھروسے کے قابل نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ یہ ساری گنواری باتیں اصطلاحات سے خالی نہیں ہیں۔ میسور اور بمبئی کے خیال سے ان سب کو بائی کاٹ فرمائیے، بلکہ دیہاتی تعلیمی کتابوں میں سے بھی نکال دیجیے۔

اب فرمائیے اس مثال سے کس کا گھر جل کر راکھ ہو گیا اور کس نے انگارے کو پھول سمجھا؟ کلکتہ ہو یا بمبئی، لاہور ہو یا پشاور، ملتان ہو یا بلوچستان جہاں کے لوگ اردو کو اردو سمجھ کر بولیں گے، اس کی تصانیف پڑھیں گے، وہ سب جان لیں گے کہ کہاں کون سا محاورہ بولا جاتا ہے۔ اوّل تو آپ کا یہ دعوی ہی غلط تھا کہ دہلی میں پھول پڑنا آگ لگنے کے موقع پر بولا جاتا ہے، جس حالت میں آج کل کے اہل دہلی نے نہیں سنا اور نہ زبان پر لائے تو آپ نے کہاں سے سن لیا؟ یوں فرمائیے کہ ایک اعتراض جڑنا تھا سو جڑ دیا اور وہ بھی بلا تحقیق، بلا مشاہدہ اور بلا تجربہ کسی پرانی کتاب میں دیکھ کر۔

علمی زبان جو شاید خود آپ ایجاد فرمائیں، وہ تو اس لوکل امتیاز کو مٹا دے گی، مگر پہلے آپ نے تو اس لوکل زبان کو اپنے مضمون میں نہ رہنے دیا ہوتا۔ ملاحظہ فرمائیے کہ یہ لوکل محاورے نہیں ہیں تو اور کون سے ہیں جو آپ نے تحریر فرمائے ہیں؟ جوتیاں چٹخاتے پھرنا، خالی موچھوں پر تاؤ دینا، جو جی بچے گا دیکھ لے گا، گھر میں چوہے قلا بازیاں کھا رہے ہیں، پھولنا پھلنا، دقیانوسی محاورے۔ کیا ان کو بمبئی یا میسور والے بخوبی سمجھ لیں گے اور دقیانوس کی تاریخ اور اس کی وجہ تسمیہ پر ان کو فوراً عبور ہوجائے گا، ہرگز نہیں، ہرگز نہیں، تا وقتیکہ اہل زبان کی تصانیف ان کی نظر سے نہیں گذرے گی، آپ کے ان محاوروں کو بھی وہ نہیں سمجھ سکیں گے۔ اور تو اور آپ کی تازہ نظم مسلم یونیورسٹی بھی دہلی کے محاوروں سے خالی نہیں، مثلاً ڈنکا بجانا، جامہ پہننا، چھاتی پر مونگ دلنا، بیل منڈھے چڑھنا وغیرہ۔

اب ذرا اپنے خاص الخاص محاورات پر بھی نظر ڈال لیجیے جس سے معلوم ہو جائے کہ آپ نے با وجودیکہ اصلاح سخن کے مدّعی ہیں کہاں کہاں ٹھوکر کھائی ہے۔ ٹکے بھر کی زبان، اس کی بجاے ٹکا سی یا ٹکا بھر کی زبان فرما سکتے تھے، ٹکے بھر نہیں بولتے اظہار مقدار کے واسطے ایسے موقع پر ٹکا بول سکتے ہیں، حقہ کی متواتر گڑگڑاہٹ پر بے شک کہتے ہیں کہ ٹکے گن رہا ہے۔ "شاہی (سید محمد تقی میر نے اپنے مرغ کے مرثیہ میں جس وقت بلی نے اس کی گردن مروڑ کر پھینک دی اور وہ اس کے پنجوں میں آ کر گری، ایک لطف پیدا کرنے کے واسطے تاج خروس کی مناسبت سے یہ شعر موزوں کیا تھا اور غالباً اسی کی یہاں ریس کی ہے ؎

جھکا بسوے قدم سر خروس بے جاں کا

زمیں پہ تاج گرا ہدہدِ سلیماں کا)

تاج زمین پر گر پڑا" اس کی بجاے شاہی تاج تاراج یعنی غارت ہوا کہتے ہیں۔ "گنے چنے با کمال" اس جگہ صرف گنتی کے با کمال بولتے ہیں۔ "دل جسم کا بادشاہ ہے زبان اس کی وزیر" "دہلی اور لکھنؤ کے محاورے گھس پھٹ کر پرانے ہوگئے"، یہ اس کی جگہ گھس پس کر کہا ہوتا۔ مگر یہ محاورہ بھی عورتوں ہی میں کپڑے کے ساتھ زیادہ مستعمل ہے، چونکہ آپ نے زبان کو اپنے دعوے کے برخلاف کپڑے سے استعارہ فرمایا اس وجہ سے اس پر زیادہ بحث نہیں کی جاتی۔ اس وقت آپ کا ایک شعر بھی یاد آگیا جو ایڈورڈ ہفتم کی وفات پر لکھا ہے، جس میں طوطی بجنا کا محاورہ خاص آپ ہی کا ایجاد ہے ؎

وجاہت آج نوبت اٹھ گئی اڈورڈ ہفتم کی

بجی ہے دھوم سے دنیا میں طوطی جارج پنجم کی

طوطی نہ ہوئی، کوئی ڈھول یا نقارہ ہوا۔ طوطی بولتا ہے ضرور سنا ہے۔

اب میں آپ کے باقی امور کی طرف لگتے ہاتھ چند حق حق باتوں کو تسلیم کر کے اور قابل اعتراض امور کا مختصر جواب دے کے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں، ورنہ یہ بحث اس قدر طویل ہے کہ برسوں میں بھی ختم نہ ہو اور ایک اصطلاح یا محاورہ ورق کے ورق سیاہ کرا دے۔

زبان کی صرف اتنی تعریف جامع نہیں کہ "زبان اس طر‌ز و انداز گفتگو کا نام ہے جس سے ایک دوسرے پر خیالات کا اظہار کیا جائے۔" بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ زبان ان الفاظ و کلمات کا نام ہے جن سے اپنا مفہوم دوسروں پر حسب موقع انداز گفتگو کے ساتھ ظاہر کیا جائے، کیونکہ صرف طرز و انداز گفتگو کا نام زبان نہیں ہے بلکہ موقع بھی شرط ہے۔ زمانۂ حال کے ایک نامی لاہوری اردو اخبار میں ہماری نظر سے گذرا کہ نیولا چالاکی سے سانپ پکڑتا ہے، یہ دراصل انگریزی سے ترجمہ ہوا تھا، لیکن چونکہ مترجم کو اس موقع اور محل کا لفظ معلوم نہ تھا اس نے چالاکی ترجمہ کر دیا حالانکہ وہ پھرتی کا موقع تھا۔ گو چالاکی از روے معنی اس کا مترادف ہے مگر اس جگہ محاورے کے برخلاف ہے جس سے نیولے کی صحیح تعریف ادا نہ ہوئی۔ علی ہذا ایک دفعہ یہ فقرہ نظر سے گزرا: "فی الحال مسلمانوں کو اردو زبان کی تحصیل پر چل پڑنا چاہیے"، اہل دہلی جھک پڑنا بولتے۔

ایک حال کی تالیفات کیا، قدامت سے پرانے اور نئے الفاظ میں تغیّر و تبدّل ہوتا آیا ہے، مگر لہجہ نہیں بدلا۔ آپ کا یہ فرمانا آپ کے نزدیک ٹھیک ہوگا کہ "لکھنؤ اور دہلی نے پچاس سال میں کچھ بھی لٹریری ماسٹر تیار نہیں کیے"۔ اگر حضرت شرر غدر سے پیشتر کی پیدائش نہیں ہیں اور غالباً نہ ہوں گے کیونکہ ان کے چہرۂ مبارک سے اتنی بڑی عمر نہیں پائی جاتی تو یہ کس پچاس سال میں شمار ہوں گے۔ علی ہذا سید سجاد حسین صاحب اڈیٹر اودھ پنج وغیرہ۔ رہی دلّی، اس غریب پر اگرچہ غدر کے طفیل یہ آفت آئی کہ اوّل تو یہاں کے نامی علما و فضلا کا صفایا ہوا اور اگر کچھ رہے تو انھیں عدم اطمینان اور فکر معاش نے تنگ کیا۔ سب سے بڑا غضب یہ ہوا کہ دہلی کالج جہاں سے بڑے بڑے لائق لٹریری مین تیار ہو کر نکلتے، صرف بارہ برس دہلی کی ہوا کھا کر لاہور سدھارا۔ اگر مسلمانوں کو اس زمانہ میں بھی انگریزی سے رغبت ہوتی تو دس بارہ برس کے عرصے ہی میں بہت کچھ کر دکھاتے۔ اس کے علاوہ قلعہ کے اجڑنے سے ان کو پیٹ کی پڑ گئی، لٹریری مین کیونکر بنتے۔ جب کسی کام پر کمر باندھ کر اٹھے اگر ایک وقت کی روٹی بھی بے فکری سے مل گئی تو ان کی غفلت، ان کی سستی، ان کی کاہلی نے یہی کہا: "لیٹ رہو مین"۔ جب خدا دے کھلانے کو تو بلائے جائے کمانے کو ؎

اب تو آرام سے گذرتی ہے

عاقبت کی خبر خدا جانے

مگر اس پر بھی لٹریری مینوں کی کمی نہیں ہوئی۔ اوّل ہمارے ہندو ہم وطن بھائیوں کو دیکھو کہ انھوں نے اس تھوڑے سے وقت میں بھی اپنا کیسا جوہر دکھایا۔ دیوان سری رام صاحب ایم۔ اے علم تاریخ کے کیسے ماہر نکلے، لیکن ریاست الور کی مدار المہامی نے تصنیف و تالیف کی مہلت نہ دی۔ آنریبل راے بہادر لالہ مدن گوپال صاحب ایم۔ اے بیرسٹر ایٹ لا کس پایہ کے لائق ہوئے کہ اردو میں صرف علم منطق پر ہی نہایت عمدہ رسالہ نہیں لکھا بلکہ قانونی کتابوں کے ترجمہ کے علاوہ میونسپل ایکٹ، کورٹ ایکٹ، ایکٹ مزارعان پنجاب، ایکٹ لگان پنجاب، لاز ایکٹ پنجاب وغیرہ تک بنا کر تیار کر دیے اور اپنی روشن دماغی اس قدر ثابت کی کہ سب سے پہلے وہی آنریبل ہوئے۔ وائسراے کی کونسل میں داخل ہونے والے تھے کہ اکیاون برس کی عمر میں چل بسے۔ لالہ سری رام صاحب ایم۔ اے خلف الرشید آنریبل لالہ مدن گوپال صاحب مدوّن تذکرۂ ہزار داستان یعنی خمخانۂ جاوید جنھوں نے اساتذہ کے نا پید دیوان بہم پہنچا کر شائع فرمائے، کمال دہلی رسالہ نکلوایا، ایک اعلی درجہ کے لٹریری مین ہیں۔ راے بہادر ماسٹر ساگر چند صاحب جو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں کے ماہر کامل اور سر رشتۂ تعلیم پنجاب کے فیض رساں رکن اعظم ہیں۔ راے حکم چند صاحب ایم۔ اے کا حیرت افزا ذکر سنیں تو آپ یونہیں رہ جائیں۔ جس زمانہ یعنی سنہ 69ء میں انھوں نے ایم۔ اے کا امتحان دیا تھا تو اس وقت شمالی ہند میں متعدد کالج تھے۔ دہلی کالج جسے ابھی چھ سات برس ہی جنم لیے ہوئے گذرے تھے اسی کالج سے راے صاحب نے ایم اے کا امتحان دیا اور تمام یونیورسٹی میں سب سے اول رہے۔ خیر لکھنؤ اور دہلی کو جانے دیجیے مگر کلکتہ کے پریسیڈنٹی کالج سے بازی لے جانا کارے دارد۔ کیونکہ بنگالی ماشاء اللہ علمی ترقی میں کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہے، انگریزی ان کی مدر ٹنگ بن گئی ہے۔ دماغ یورپ کے عالی دماغوں سے ٹکّر کھانے لگا ہے۔ اس کے بعد آپ نے ملازمت اختیار کی۔ سنہ 73ء کے بنگال اور اڑیسہ کے قحط میں وہ لیاقت دکھائی کہ سنہ 77ء کے دربار قیصری کے موقع پر وایسراے ہند نے اپنے دست مبارک سے دو طلائی تمغے مرحمت فرمائے۔ اگر یہ جوڈیشل سروس پنجاب سے 82ء میں استعفا نہ دیتے تو چيف کورٹ کی ججی کے واسطے بھی رپورٹ ہو گئی تھی۔ اب قانونی لیاقت کی طرف توجہ فرمائیے، تعزیرات ہند کی اردو شرح، ضابطۂ دیوانی اور ضابطۂ فوجداری کی اردو شرح ایسی مقبول عام لکھی کہ انھیں ایک مطبع کر کے ماہواری قانونی رسالہ نکالنا پڑا۔ اس کے علاوہ لا آف کنسینٹ (Law of consent) کا نہایت عمدہ اور سب سے پہلا ترجمہ کیا، جس نے دقیق سے دقیق قانونی اصطلاحوں، ادق مضامین کو اردو میں نہایت آسان اور پانی کر کے دکھا دیا۔

اس کے بعد جب آپ حیدرآباد دکن تشریف لے گئے اور لیجس لیٹیو کونسل کے سکریٹری مقرر ہوئے تو وہاں بسرپرستی اعلی حضرت بندگان عالی متعالی (His Pidicete) یعنی دفعہ تیرہ ضابطہ دیوانی کی شرح ہزار صفحوں پر ایسی مبسوط اور مدلل لکھی کہ امریکہ، فرانس اور انگلستان کے نامور مقننوں نے ان کی عالمگیر واقفیت و معلومات کی صرف داد ہی نہیں دی بلکہ ان کے مشرقی دماغ پر حیرت ظاہر کی۔

اگر ہندوستان کے کسی دوسری جگہ کا آدمی ایسا لائق ہوا ہو تو وہ ہمیں دکھا دو، لیکن ان کو بھی بد نظروں کی نظر کھا گئی۔ سا‏ئم صاحب بہادر کو اپنے ان شاگردوں پر ناز تھا اور دہلی والوں کی روشن دماغی کی نظیر میں ان کے نام پیش کیا کرتے تھے۔ لالہ سورج نرائن متخلّص بہ مہر نے سر رشتۂ تعلیم پنجاب میں علمی کتابوں کی تصنیف سے جو کچھ مدد دی وہ اب تک پڑھائی میں داخل ہیں اور کلام مہر ان کی انوکھی شاعری کا اعلی نمونہ۔

لیٹنر صاحب کی دشمنی بھی ان کا کچھ نہ کر سکی، البتّہ شاہجہاں آباد کا پہلا سا علمی عزّ و شرف صرف انگریزی کی طرف توجہ نہ کرنے اور یہاں موجودہ سلطنت کا دار الصدر یا دار الحکومت نہ ہونے سے جاتا رہا۔ بلکہ ایک وجہ یہ بھی ہے اہل حرفہ، دستکاری پیشہ لوگوں نے تو پیٹ بھر لینے کو کافی سمجھا اور جو کھاتے پیتے تھے انھوں نے اپنا آبائی علم و ہنر چھوڑ کر یا تو دوسری طرف توجہ نہ کی یا بساط سے زیادہ مدارس کے اخراجات کی برداشت نہ کر سکے، قوت لا یموت پر مٹے رہے، لیکن پھر بھی اصحاب ذیل اس وقت اپنا جوہر طبیعت ایسا دکھا رہے ہیں کہ آپ کو ان کا نام سن کر اپنی ناواقفیت پر آپ افسوس آئے گا۔

خان بہادر میر ناصر علی صاحب مالک صلاے عام مضمون آفرینی، مضمون نگاری، متانت، بلاغت، ظرافت میں کیسے شہرہ آفاق ہیں۔ شیخ محمد عنایت اللہ صاحب بی۔ اے خلف منشی ذکاء اللہ مرحوم مصنّف تذکرۂ ابو ریحان بیرونی و مترجم مضامین اشاعت الاسلام مصنّفہ جناب ٹی ڈبلیو آرنلڈ صاحب اور نیز آپ نے پریچنگ آف اسلام کا قابل قدر ترجمہ انگریزی سے اردو میں کیا لیکن موجودہ ملازمت نے ان کا سارا وقت لے لیا ہے جس سے یہ مجبور ہیں۔ مولوی احمد حسن صاحب سابق تعلّقدار ریاست نظام، علم عربی کے بڑے ادیب، تفسیر قران کے مفسّر اور ترجمہ مشکوۃ کے نامی مترجم ہیں۔ مولوی سید اشرف حسین صاحب بی۔ اے جنھوں نے میر حسن کی مثنوی کا دیباچہ لکھا اور مخزن پریس میں مع مثنوی طبع ہوا، حافظ سید حسین صاحب عرشی ہمشیرہ زادۂ مولوی نذیر احمد صاحب ایل۔ ایل۔ ڈی جن کے مختلف مضامین نظم و نثر مخزن و عصمت میں نکلتے رہتے ہیں اور آج کل آپ تذکرۂ خواتین دکن و سلطانہ چاند بی بی تصنیف فرما رہے ہیں۔ مولوی بشیر الدین احمد صاحب مصنّف حرز طفلاں و اقبال دلہن وغیرہ۔ مولوی عبد الراشد صاحب الخیری مصنف صبح زندگی، منازل السائرہ، صالحات وغیرہ۔ قاری سرفراز حسین عزمی دہلوی مصنف شاہد رعنا، سعید و سعادت، انگریزی سلکشن آف دی قران۔ ڈاکٹر مشرف الحق صاحب ایم۔ اے پی۔ ایچ۔ ڈی جنھوں نے انگلستان کے کتب خانہ کی لسٹ بڑی قابلیت سے تیّار کی اور ان کے مضامین مخزن میں نکلے ہیں۔ مولوی عبد الجبار، مولوی عبد الستار خیری ایم۔ اے امریکہ یونیورسٹی جنھوں نے بیروت میں مسلمانوں کا دار العلوم قائم کر دیا اور اس کے کورس تیار کیے۔ ماسٹر سید ذاکر حسین صاحب مصنف اتالیق انگریزی، پاکٹ ہسٹری وغیرہ۔ یہ دس پانچ برس سے ایک اور عظیم الشان تاریخ ملازمت چھوڑ کر لکھ رہے ہیں جو یقین ہے اس سال میں ختم ہو جائے۔ ان کی اور بھی کئی کتابیں ہیں جن کا ہمیں اس وقت نام یاد نہیں۔ مولوی انعام الحق و مولوی احتشام الدین جن کے مضامین اور جن کی کوشش سے رسالۂ خاتون نے جنم لیا۔ مولوی احمد علی خاں جن کے دم سے سلسلۂ اتالیق نسواں تیار ہو کر شائع اور مفید مستورات ہوا۔ مولوی نصرت علی مالک نصرت الاخبار، شیخ نور الہی مصنف نا خواندہ مہمان و قتل شوہر وغیرہ۔ ان کے علاوہ منشی درگا پرشاد نادر مصنف کتب متعددہ بھی قابل ذکر ہیں۔ جب یہ لٹریری مین نہیں شمار ہو سکتے تو اور کون سے ہو سکتے ہیں۔

زندہ دلان پنجاب خدا ان کی ہمّت، ان کی اولو العزمی، ان کے استقلال میں برکت دے باوجود عدم فراغ بالی اس طرف جھک پڑے اور ایسے جھکے کہ اپنے وطن، اپنی قوم کی ناک کیا لاج رکھ لی، ہمیں ان پر فخر کرنا چاہیے۔ دنیا میں ترقی ایک ہرتی پھرتی چھاؤں ہے، لیکن یہ اب بھی ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مقامی اثر کو کوئی نہیں بدل سکتا، ہر ایک چیز اپنی خاص جگہ میں خوب پھولا پھلا کرتی ہے اور اصل جوہر وہیں دکھایا کرتی ہے۔ کشمیر کو زعفران کے ساتھ، باڑے کو چاولوں کے ساتھ، سرولی کو آموں کے ساتھ، سہارنپور کو نیشکر کے ساتھ، لمبے لمبے بالوں کو بنگالہ کے ساتھ، ناگپور کو رنگتروں کے ساتھ، بمبئی کو کیلوں کے ساتھ، بنگالہ اور دکن کو تاڑی کے ساتھ، انناس اور ناریل کو کلکتہ کے ساتھ، لاہور کو بید مشک کے ساتھ، میسور کو صندل کے ساتھ جو مناسبت ہے وہ ہر ایک سر زمین کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ بقول شخصے مانگے کے پروں سے اڑا نہیں جاتا یعنی آمد اور آورد میں بہت بڑا فرق ہو جاتا ہے۔ لیکن اس پر بھی زبان اردو میں جس قدر انھوں نے ترقی کی، قابل داد و صاد ہے۔ مگر محاورات کے اختراع کرنے اور مادری زبان کی طرح اس پر قابو پانے سے ابھی کوسوں دور ہیں اور یہ فرق اگر اہل دہلی بھی اجڑ کر وہاں جا بسیں تو لاہور کے خطے کی آب و ہوا اس صورت میں بھی پنجاب کے لب و لہجہ کو چھوڑ کر تا وقتیکہ دہلی میں جنم نہ لیا جائے یہاں کے لب و لہجہ میں شامل نہ ہونے دے۔ اہل فارس کا لب و لہجہ اہل ہند کہاں سے لا سکتے ہیں، اہل عرب کی طرز گفتگو کیوں کر پیدا کر سکتے ہیں، یوریشین اور یورپین کی زبان میں کیوں فرق ہے، کرنٹوں کی انگریزی اور دوغلوں کی انگریزی میں کیوں بل ہے، اٹیلین حرف ٹی کیوں نہیں نکال سکتے؟ یہ ساری باتیں مقامی اثر سے متعلق ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ جس طرح غیر ممالک کے مصنفوں نے طویل طویل کتابیں دوسری زبانوں میں لکھی، علوم و فنون کے ترجموں سے اپنے ہم وطنوں کو بڑے بڑے فائدے پہنچائے اسی طرح اہل پنجاب پہنچا رہے ہیں۔ البتہ شعر گوئی میں جس طرح اہل لکھنؤ اساتذہ کے کلام سے یا اصلاح سے مدد لے لے کر خاصے زبانداں بن گئے ہیں، اسی طرح باشندگان لاہور بھی ان سے پیچھے نہیں رہ سکتے، بلکہ لکھنؤ اور دہلی کی مسافت کا فرق ہانکے پکارے یہ کہہ رہا ہے کہ لاہور ضرور ایک دن دہلی کا بچہ بن جائے گا اور اب بھی اس میں اردو زبان کے ایسے لائق اہل سخن پیدا ہونے لگے ہیں کہ انھوں نے حضرت داغ کا پورا پورا تتبع کر کے دکھا دیا ہے، بلکہ مغربی و فلسفی خیالات کی چاشنی نے مضامین کے لحاظ سے شاگردوں کو بھی مغربی استاد بنا دیا ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی ہم لاہور کو مرکز کہنے میں مبادرت نہیں کر سکتے اور اس کا ادنی سا ثبوت یہ دے سکتے ہیں کہ لاہور کا کوئی سا تعلیم یافتہ کوئی سی ٹھیٹ اردو عبارت لکھ کر اسی عبارت کو اہل دہلی سے ملا کر دیکھ لے، ضرور کوئی نہ کوئی بات اہل زبان کے بر خلاف اس میں پائی جائے گی۔ گو لغوی غلطیوں سے، صرفی غلطیوں سے وہ پاک ہے، مگر آب و گل کے اثر کو نہیں بدل سکتی۔ یہ کہنا غلط بلکہ محض خوشامد ہے کہ لاہور ٹھیٹ اردو زبان کا مرکز کہے جانے کی قابلیت رکھتا ہے، ہاں ہندوستانی زبان یا اردو مخلوط زبان بولنے، لکھنے، پڑھنے کی اس میں پوری پوری قابلیت و صلاحیت آگئی ہے جو روز بروز بڑھتی چلی جاتی ہے اور یہ زبان خاص کر اہل اسلام سے زیادہ تعلق رکھتی ہے۔

البتہ اس بات کا ثبوت ہم کو ابھی تک نہیں ملا کہ داغ مرحوم آپ کے بقول زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ اپنا رنگ زبان بھی بدلتے گئے۔ ہمارے نزدیک داغ نے اپنی پہلی ہی زبان قائم رکھ کر یہ عروج پایا۔ جو معاملہ بندی، جو روزمرّۂ دہلی وہ ابتدا سے لکھتے آئے تھے اسی کو لکھتے چلے گئے اور یہی ان کی قدردانی کا باعث ہوا۔ اگرچہ دہلی مٹ گئی مگر اس کی زبان، اس کے چوچلوں، اس کے محاوروں، اس کے انداز کلام کو نہ مٹایا، نیچری شاعری کو انھوں نے پسند نہیں کیا، کوئی ناول یا ڈراما انھوں نے نہیں لکھا، کوئی سائنس یا کسی اور علوم جدید کا پہلو انھوں نے اختیار نہیں کیا، پھر وہ کون سے زمانہ کی رفتار تھی جو انھوں نے اختیار کی، وہ تو ہمیشہ اپنے اسی رنگ میں ڈوبے رہے جس رنگ میں انھیں خدا داد ملکہ حاصل تھا۔ ہمارے وہ دوست تھے، فصیح اللغات میں انھوں نے ہماری فرہنگ آصفیہ سے کچھ مدد لی، جسے مقابلہ کر کے دیکھیے۔ تقاضا کر کے ہم سے کتابیں منگوائیں۔ جب ہم حیدرآباد گئے تو ہر بار دعوتیں کھلائيں، اپنے قصیدوں کی داد چاہی اور فرمایا کہ لوگ کہتے تھے کہ داغ قصیدہ نہیں لکھ سکتا، دیکھیے خدا نے یہ مشکل بھی کیسی آسان کی۔ احکم الحاکمین نے انھیں دہلی کی زبان کا بادشاہ بنایا تھا۔ وہ اصناف سخن پر قادر تھے، گو بعض سخن سنج یہ فرماتے ہیں کہ حضرت داغ رباعی کے وزنوں کی پابندی سے آزاد رہے، مگر ان باتوں کو سخن فہم ہی خوب سمجھ سکتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ "بعض موقعوں پر ان کا قدم رفتار ‌زمانہ سے بھی کچھ آگے بڑھ کر پڑا"، جس کی نظیر کے واسطے ہمار دل بے تابی کے ساتھ منتظر ہے۔ داغ کا کلام سو برس کیا جب تک زبان اردو کا نام باقی ہے برابر قائم و برقرار رہے گا۔ وہ کون سی بات ہے کہ دہلی کے اور شاعروں نے جس کی طرف توجہ نہیں کی، وہی پرانی ترکیبیں اور دقیانوسی محاورے ہوتے۔ جن پرانے محاوروں کی سمجھ سے آدمی عاری ہوتا ہے وہاں ایسے ہی جملے زبان سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ خواجہ حالی کی برکھا رت، سیف الحق ادیب کی برکھا رت، بدر الاسلام شائق کی برکھا رت دیکھیے کس زبان میں ہے۔ حضرت داغ کی ان رنگوں کی طرف توجہ ہی نہ تھی۔ ایک دفعہ منشی احسان اللہ مخیّر ان کے استاد بھائی کا ذکر آیا فرمایا کہ ہم کو ان سے کمال محبت ہے، اب کہاں ہیں اور کس رنگ میں ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ رڑکی میں ہیں مگر عاشقانہ شعر گوئی سے توبہ کر لی ہے۔ فرمایا بس تو اب ہم نے بھی یاری کُٹ کر دی۔ اور سنو ایک دفعہ خواجہ حالی نے حضرت داغ کو لکھا کہ کیونکر گذرتی ہے؟ انھوں نے اس کے جواب میں اپنی دو تازہ غزلیں بھیجیں اور سید وحید الدین احمد صاحب بیخودؔ حاضر الوقت سے یہ سطریں لکھوائیں کہ "بھائی میں تمام دن گھر کی کنڈی لگائے اپنی زبان کی حفاظت کرتا رہتا ہوں"۔ یعنی وہی قدیم انداز، وہی بندش، وہی دائرہ ہے، اس سے باہر نکلنا منظور نہیں۔ اعتبار نہ آئے تو ان غزلوں کے رنگ کو دیکھ لو، اس بیان سے بھی یہی ظاہر ہے کہ کوئی نیا رنگ اختیار نہیں کیا۔ جو اشعار مقبول آپ کے کانوں کو مزہ نہ دیں تعجب ہے کہ اصلاح سخن میں انھیں الفاظ سے بھری غزلیں درج ہوتی رہتی ہیں اور وہی پرانا عاشقانہ رنگ پایا جاتا ہے۔ دہلی اہل کمال کہاں سے پیدا کرے، پیٹ کو ٹکیا نہیں سونے کو کھٹیا نہیں، اطمینان ہو تو سب کچھ کیا جائے۔ وہی مثل ہو رہی ہے کہ مردے کو بیٹھ کر رویا جاتا ہے اور روٹی کو کھڑے ہو کر۔ اگر یہ لوگ کچھ اپنے مادّۂ خدا داد سے کر کے بھی دکھائیں تو اپنا قدر دان کہاں سے لائیں، خدا وہ دن کرے کہ کلکتہ کی بجاے دہلی دار السلطنت ہو جائے یا لاہور کی لفٹنٹی یہاں آجائے تو ہم دکھاویں کہ یہاں کے اجلی سمجھ والے کیا کچھ کر دکھاتے ہیں اور اب تو رات دن روٹی کے دھندے میں لگے رہتے ہیں۔ بقول خواجہ میر درد ؎

وہ دن کدھر گئے کہ ہمیں بھی فراغ تھا

یعنی کبھو تو اپنا بھی دل تھا دماغ تھا

لیکن اب بھی جو دو چار ٹوٹے پھوٹے دم ہیں، غنیمت ہیں۔ بلکہ چھوٹی تانتی بھی جودت طبع، رسائی دماغ، بلند پروازیِ خیالات میں اپنی آن بان دکھاتی رہتی ہے۔ اگر روزانہ پیسہ اخبار وغیرہ کا یہاں اسی طرح شوق رہا تو ان کے مطالعہ سے روز بروز علمی مذاق بھی بڑھتا جائے گا۔ اتنا تو ہو گیا ہے کہ جو لوگ بازار سے خرید کر پڑھنے کا مقدور نہیں رکھتے تو وہ دلّی پبلک لائبریری میں ضرور جا کر پڑھ آتے ہیں۔

تجارتی منڈی کے جو دھنی ہیں انھوں نے بھی قومی مدرسے کھول دیے، جہاں سے تجارتی کاروبار اور ابتدائی تعلیم کی پلٹنیں نکلنی شروع ہوگئی ہیں۔ کوئی وکالت پر گرا ہے تو کوئی تجارتی مشغلہ پر باقاعدہ ڈھلا ہے۔ مضمون نگاری، انشا پردازی، مدرّسی، ماسٹری میں بھی قدم رکھنے لگے ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ دہلی کے پنجابی تاجر ہر فن مولا ہو جائیں گے۔ اصلاح قوم، اصلاح رسوم، درستیِ اخلاق پر بھی ٹوٹ پڑے ہیں۔ دہلی کا نام رکھ لینے والے اگر ہیں تو اب یہی اصحاب ہیں۔ آسودگی نے سخاوت کا ڈنکا بھی انھیں کے نام کا بجوا دیا ہے، مگر بعض بعض سخاوتیں ایسی ہیں کہ وہ لوگوں کو رہا سہا سست، کاہل اور مجہول بنائے دیتی ہیں۔ حرفت، پیشہ، مزدوری، ملازمت چھوڑ چھوڑ کر مردوں اور عورتوں نے بھیک مانگنے پر کمر باندھ لی ہے۔ زکوۃ سے، صدقہ سے، فطرہ سے، قربانی سے، مال میّت سے، فاتحہ درود کے لوازمات سے، حج کے نام سے لوگوں کو برابر مدد پہنچ رہی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ سخاوت نہیں اہل اسلام کے ساتھ عین عداوت ہے۔ جن لوگوں کو گھر بیٹھے بلا محنت و مشقّت روٹی ملے وہ کیونکر کوئی ایجاد یا اختراع رفع ضرورت کے واسطے بر روے کار لا سکتے ہیں، کیونکہ ہر ایک ایجاد اور اختراع کی رہنما ضرورت ہے۔ جب ما یحتاج کی ضرورت نہ رہی تو کیوں کوئی فن نکالا یا علم ایجاد کیا جائے۔ یونان بھیک کو عیب نہ سمجھنے سے اپنے کاروبار چھوڑ کر ایک مرتبہ تباہ و برباد ہوچکا ہے، اب ہندوستان کی باری ہے۔

اس میں کیا کلام ہے کہ آگرہ اور اودھ کے بعد پنجاب، دکن اور بہار نے اردو زبان کی بہت کچھ خدمت کی ہے۔ خان بہادر مولوی سید علی محمد صاحب شادؔ، مولوی فضل حق صاحب آزادؔ، حکیم سید فہیم الدین صاحب فہیمؔ عظیم آبادی، مولوی حبیب الرحمن صاحب مونگیری، مولوی ابو العاص صاحب ہوسؔ عظیم آبادی ان سب روشن سیّاروں کے آفتاب مولوی قاری مولانا شاہ سلیمان صاحب پیر زادۂ پھلواری کیسے مقدّس، خوش بیان، خوش تقریر قابل فخر بزرگوار ہیں، مگر میرٹھ بھی کچھ کم نہیں ہے۔

پنجاب کی ترقی کو ہم دل سے مانتے اور سراہتے ہیں، لیکن دکن پر ترجیح نہیں دے سکتے۔ لٹریری ذخیرہ تیار ہونے میں جس وجہ سے قدرے کمی ہوئی وہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں، مگر اصلاح سخن کے مطلب کی فوج ہمیشہ تیار ہے، یعنی ابھی تک دہلی شعراے گرامی قدر سے خالی نہیں ہے گو اہل لکھنؤ کی طرح یہاں ذرا ذرا سی بات پر دھوم مچا دینے کی عادت نہیں، لیکن ملکۂ خدا داد، طبع وقاد، رسائی طبع، لطافت زبان ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ بچہ بچہ بلحاظ زبان ذوق، میر، داغ، غالب، مومن بنا ہوا ہے۔ ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں۔ یعنی جو ان کا خمیر تھا وہی ان کا خمیر ہے، جس باغ کے وہ گل بوٹے تھے، اسی باغ کے یہ غنچے اور کلیاں ہیں۔ پشت پناہ سخن اردو عالی جناب سید ظہیر الدین (افسوس کہ حال میں بمقام حیدرآباد دکن انتقال فرمایا) حسین صاحب ظہیرؔ دہلوی کا ولولہ انگیز، نزاکت آمیز کلام سنو اور انھیں ملجا و ماواے سخن بے چوں و چرا نہ مانو تو ہم اپنا کان پکڑیں۔ سید وحید الدین احمد صاحب بیخودؔ کا کلام سن کر بے خود نہ ہوجاؤ تو ہم ہارے تم جیتے۔ منشی کرم اللہ خاں صاحب شیداؔ کے کلام پر فریفتہ ہو کر نہ مر مٹو تو ہمارا ذمّہ۔ حضرت مولوی عبد الرحیم خاں صاحب بیدلؔ کی فصاحت اور روزمرہ تمھارا دل نہ چھین لے اور دل پکڑے پکڑے نہ پھرو تو ہم جھوٹے تم سچے۔ نواب احمد سعید خاں صاحب طالبؔ کے اشعار سنو تو شاگردی کے طالب ہو جاؤ۔ نواب سراج الدین احمد خاں صاحب سائلؔ کی نغمہ سنجی پر کان لگاؤ تو فقیر بن جاؤ۔ آغا صاحب شاعرؔ کی بلند پروازی دیکھو تو انھیں آقاے سخن سمجھنے میں تامّل نہ کرو۔ علی ہذا القیاس ان سے آگے چلو تو منشی بہاری لال صاحب مشتاقؔ کے پیارے کلام کے ہمیشہ مشتاق رہو۔ منشی قمر الدین صاحب قمرؔ کے لیے چکور بن کر آسمان کے چکر کاٹتے پھرو۔ بابو مہاراج بہادر برقؔ کے دھواں دھار اشعار کی برق اندازی پر نظر ڈالو، اگر زمین پر لوٹے لوٹے نہ پھرو تو اس سمجھ پر بجلی ٹوٹے۔ مرزا تقی بیگ صاحب شیداؔ کے کلام پر شیدا و والہ بنو۔ منشی سورج نراین صاحب مہرؔ کی صوفیانہ و موحدانہ جلوہ افروزیوں سے آنکھ لڑاؤ اور چکا چوند سے سورج مکھی نہ بن جاؤ یا ان کے ناراین کی شکتی کو نہ مانو تو ہمیں مات دو۔ محمد مرزا خاں صاحب عابدؔ کے لیے معبود کی قدرت دیکھ کر سر بسجود نہ ہو جاؤ تو ہمیں عبادت کا منکر سمجھو۔ پنڈت برج موہن دتاتریہ صاحب کیفی کے سرور افزا اشعار سن کر مسرور نہ ہو تو ہمارے دعوے کو بے بنیاد ٹھہراؤ۔ حکیم اسد علی خاں صاحب مضطرؔ کا کلام آپ کو مضطرب و بے قرار نہ پھرائے تو جو کچھ تم سے کہا جائے ہمیں کہہ لو۔ منشی گوری شنکر صاحب قصیرؔ کے کثیر المعانی اور قصیر التعداد شاعرانہ الفاظ و وفادارانہ مضامین کو دیکھو اور یونہیں نہ رہ جاؤ تو ہمیں قصور وار ٹھہراؤ۔ نواب سید اکبر مرزا صاحب سید کا کلام سنو اور ساداتی کرشمہ کے معتقد نہ بنو یا انھیں گل شعرا کا سردار با وقار نہ مانو تو بے شک ہمیں قائل کرو۔ مرزا خورشید عالم بہادر گورگانی خورشیدؔ کے اشعار کا کبھی جلال کبھی جمال دیکھو اور آفتاب پرستی پر نہ اتر پڑو تو بے شک ہمیں شمّاسی خیال کرو۔ اسی طرح اگر ضیاء گورگانی کے کلام کی نور افزا شعاع تار برقی کی طرح رگ رگ میں سرایت کر کے نورانی جلوہ نہ دکھا دے تو ہمیں معدوم البصر جانو۔ محمد تقی بیگ مائلؔ کے لیے بصدق دل مائل ہو اور آکر ان کا کلام سنو تو قلعی کھلے۔

بے شک یہ لوگ شہرت طلب نہیں ہیں، یہ اپنی شہرت کو تشہیر اور اس قسم کی ناموری کو عین تحقیر سمجھتے ہیں مگر کوئی شائق آجائے، ان کا کلام سنے یا سن کر لے جائے تو اس میں دریغ بھی نہیں فرماتے۔ یہ بھی ایک مرکزی ثبوت ہے۔

یہ بات تامّل طلب ہے کہ "دہلی یا لکھنؤ کے بعض محاورے پرانے ہوگئے، ان کو قابل استعمال نہیں سمجھتے"۔ یوں تو ہر ایک زبان غیر مانوس الفاظ کو چھوڑتی اور مانوس کو اختیار کرتی جاتی ہے اور یہی حال دہلی کا بھی قیاس میں آسکتا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو قابل استعمال نہیں سمجھتے۔ اگر اہل دہلی ہیں تو یہ بات قابل اعتراض نہیں، وہ حکّ و اصلاح کے مجاز ہیں جو کچھ کریں گے اپنی زبان اور رجحان کے موافق کریں گے۔ اگر باہر والے ہیں جن کی جہالت سے خدا نکالے اور ان کے بے میل، بے جوڑ الفاظ سے پالا نہ ڈالے تو یہ بات قابل تسلیم نہیں۔ اس کے علاوہ بعض کا اطلاق کل یا کثرت پر نہیں ہو سکتا، جزو کی خاطر کل کو چھوڑنا انصاف کے برخلاف ہے۔

ایک پنجاب کے اخباروں پر کیا موقوف ہے، جہاں کے اخباروں میں کوئی بات چھپے گی وہ سب میں مشتہر ہو جائے گی۔ اگر وہ اخبار کثیر الاشاعت نہیں ہے اور وہ بات اس قابل ہے کہ اس سے عام لوگوں کو باخبر کیا جائے تو کثیر الاشاعت اخبار خود اسے اپنے اخباروں میں جگہ دیں گے اور اگر جگہ نہ دیں گے تو پبلک کے گناہ گار ٹھہریں گے۔ اس میں علمی زبان ہو یا لٹریری، مگر علمی زبان آپ کس کو کہتے ہیں۔ اگر علم سے غرض فنون، طبیعیات، سائنس، ریاضی وغیرہ ہے تو ہر علم کی اصطلاحیں مخصوص ہوا کرتی ہیں اور وہ اسی علم میں کار آمد ہوتی ہیں جس علم سے متعلق ہیں، نہ کہ خواہ مخواہ ہر ایک موقع پر دخل در معقولات سے کام لیں اور کھینچ تان کر بلا مناسبت ہر ایک جگہ پر لے آئیں۔

رَو آپ جانتے ہیں کہ پانی کے ریلے کو کہتے ہیں، مگر طبیعیات یا سائنس کے ترجمہ میں بجلی کی دوڑتی ہوئی قوّت یا شعلہ کو برقی رو لکھا گیا ہے، تو کیا ضرور ہے کہ ہم یہاں اس رو کو بھی پانی کی رو سمجھیں یا اپنے سابقہ روز مرّہ کے موافق پانی کے ریلے کی بجاے برقی رو خیال کر لیں۔

مثبت اور منفی دراصل گریمر یا منطقی اصطلاحیں تھیں، لیکن سائنس کے ترجمہ میں بجلی کی تقسیم سے مراد لی ہے (یعنی قائم و مُفر بجلی) تو کیا لازم ہے کہ ہم سائنس میں بھی منطق و صرف و نحو کی مجوّزہ اصطلاح سے کام لیں اور وہی بجلی کی اصطلاحی تقسیم برقرار رکھیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو اصطلاح جس علم میں بیان ہوئی ہے وہ اسی علم کے متعلق مفہوم ہوگی، نہ کہ دیگر علوم سے بھی ویسا ہی تعلق رکھے گی۔

دائرہ کی تعریف جو اقلیدس میں ہے کیا اس کے لیے ہم چکّر، کنڈل، منڈل، گھیرا، گتّا، گروہ، پیّہ، قرص، چکئی، حلقہ، کنڈلی وغیرہ اقلیدس کی تعریف کے برخلاف ہر ایک جگہ مستعمل کر سکتے ہیں؟ کیا کرہ کے واسطے گولا یا گیند کا لفظ خاص اصطلاح کو چھوڑ کر برتاؤ میں لا سکتے ہیں؟ کیا قوس کی مخصوص تعریف سے گذر کر اسے دھنک، دھنش یا کمان سے تعبیر کر سکتے ہیں؟ پس علمی زبان اور ہے اور روز مرّہ بول چال یا علم ادب اور کوئی سا علم کیوں نہ ہو اردو زبان میں آسکتا ہے، اس کا میدان وسیع ہے۔ ہندی کے الفاظ، سنسکرت کے الفاظ، عربی کے الفاظ، فارسی کے الفاظ، گریک یا لٹین کے الفاظ، ترکی الفاظ، انگریزی کے الفاظ جونسے چاہو اس میں کھپا سکتے ہو۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جہاں تک ہندی، فارسی، عربی کے الفاظ مل سکیں انھیں مقدّم سمجھیں اور باقی اصطلاحیں خواہ مرکّب کر کے خواہ مفرد حالت میں قائم رکھی جائیں۔ اردو زبان میں جو ناول، تاریخیں، الجبرا، اقلیدس، مساحت، ریاضی کا ترجمہ ہوا ہے کیا اس کے لیے الفاظ میسر نہیں آئے۔ اگر نہیں آئے تو یہ اتنے بڑے بڑے ترجمے کہاں سے کیے گئے۔ ہمارے ایک دوست نے صوبۂ بہار کی تعلیمی کتابوں کے واسطے کچھ ٹھیٹ ہندی الفاظ گھڑے تھے، مثلاً ادھ چکّر نصف دائرہ کے واسطے، پورا چکّر پورے دائرے کے لیے۔ لیکن پہلے ترجموں میں جو عربی الفاظ مستعمل ہوگئے تھے ان کے آگے یہ سمجھ میں نہیں آئے۔

اسی طرح راجا شیو پرشاد صاحب نے جو اردو صرف و نحو نام رکھ کر ٹھیٹ سنسکرت اصطلاحات کا اس میں نمونہ دکھایا وہ بھی پانی کے بلبلے کی طرح ابھر کر رہ گئی۔ اردو تو اردو ہندی خوانوں کو بھی اس کا سمجھنا اور اس پر عمل درآمد کرنا مشکل ہو گیا۔ کسی نے بھی نہ جانا کہ سارتھک کیا ہے اور نرتھک کس جانور کا نام ہے۔ ہاں موضوع اور مہمل سب نے سمجھ لیا۔ سوبھاوک دھات اور کرترم کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ مصدر وضعی و غیر وضعی آسانی سے ذہن نشین ہو گیا۔ مشتق کی بجاے دھاتج، لازم کی بجاے اکرمک، نکرہ کی بجاے جات باچک وغیرہ الفاظ کا رواج چاہا مگر نہ ہوا۔ استاد نے ماضی کی بجاے بھوت سمجھایا، طالب علم اسے پریت اور بھتنا سمجھے، جس سے ثابت ہوا کہ اردو میں مغلق اور ثقیل المخارج الفاظ کے قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی فصاحت ایسے الفاظ اخذ کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ وہ تو عام فہم اور سہل المخارج کی دل دادہ ہے اور یہی مقبولیت عام کی وجہ ہے۔

اگر بدھ مذہب سنسکرت زبان میں اپنی انمول نصیحتوں کو بیان کرتا تو اس قدر ترقی نہ ہوتی جس قدر پراکرت یعنی عام زبان میں اس کی ہدایات نے رواج پاکر دل نشینی و خاطر گزینی کا مرتبہ حاصل کیا۔ یہی حال خاص اردوے معلے یعنی دہلی کی مقبول عام زبان کا ہے نہ کہ لکھنؤ کی زبان کا کہ فقرے کے فقرے اگر ان میں سے چند ہندی روابط و افعال نکال دیے جائیں تو خاصی فارسی کی عبارت بنتی چلی جائے۔ اب فرمائیے انوکھے محاورے یہ ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا یا جان چھڑکنا اور پھول پڑجانا، جن کے سمجھنے میں آپ نے خود غلطی کی اور بہت بڑی غلطی کی۔ دہلی کی زبان کا مرکز تو کیا، ہاں لکھںؤ کی زبان کا مرکز لاہور ہوسکتا ہے کیونکہ دونوں مقلد ہیں۔

آپ نے یہ کیونکر جانا کہ عربی نے اپنا پرانا وطن چھوڑ دیا۔ کیا وہاں اب یہ زبان بالکل نہیں بولی جاتی یا مستند نہیں رہی۔ یہ فرمائیے چونکہ وہ اسلامی مرکز تھا وہاں کا وہیں بنا رہا، مگر اس کی زبان جو سلاست و فصاحت میں اپنا جواب نہیں رکھتی یہاں تک پھیلی کہ بیروت اور مصر میں جا پہنچی اور ایسی مقبول ہوئی کہ عربی میں یہودی، نصرانی، قبطی، الجیرین، ابیسینین، اہل مراکو، اہل نوبہ وغیرہ نے صرف یہ زبان ہی اختیار نہیں کی بلکہ اس زبان میں تصنیفات کے ڈھیر لگا دیے، اخبار جاری کردیے اور اس قدر ترقی کی کہ جرمنی، فرانس اور انگلستان میں بھی اس کے فاضل نظر آنے لگے۔ لین صاحب کی مدّ القاموس (اس کی حرف قاف تک کی جلدیں ہماری نظر سے بھی گذریں ہیں۔) آپ نے دیکھی ہوگی، جنھوں نے خاص عرب میں رہ کر جمع کی اور انگلستان میں آکر شاید بیس جلدوں میں چھپوائی۔ اہل عرب کو فخر کرنا چاہیے کہ ان کی زبان زندہ زبانوں میں ہے، ڈیڈ لینگویج میں نہیں ہے۔ اس نے یہاں تک ترقی کی ہے کہ غیر قوموں اور غیر ملکوں میں بھی دوڑ گئی ہے۔ عرب کو سب پوچھتے ہیں اور جب تک مذہب اسلام اور خدا کا کلام قائم رہے گا برابر پوچھے جائیں گے۔ آپ جو بیروت اور مصر کو عربی کے حق میں قابل سند گردانتے ہیں، کیا حلّ لغات قران و احادیث میں بھی بیروتی یا مصری عربی سند لی جاتی ہے؟ جس کا نام ٹھیٹ اردو زبان ہے وہ دہلی سے نکل کر اپنی اصلی حالت کے ساتھ لاہور نہیں چلی جائے گی، بلکہ لاہور والے خود دہلی کی زبان کے متّبع ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے۔ یہی دہلی کے واسطے مرکزی ثبوت اور اردو کی ترقی کا پورا پورا معیار ہے۔ جس زبان میں اپنے مقام پیدائش کی اصالت، شستگی، مختلف قسم کی تصانیف کا مادّہ ہوتا ہے، اس میں ہر ایک علم جگہ پاتا چلا جاتا ہے۔ ہماری زبان میں جس طرح علوم قدیمہ کا ذخیرہ موجود ہے اسی طرح علوم جدیدہ کا اندراج بھی ہو رہا ہے اور روز بروز ہوتا رہے گا۔ دیوناگری کا دیو کیا، بڑے سے بڑا ناگ بھی حملہ کر کے اپنا زہریلا اثر اس پر نہیں پہنچا سکتا، کالے سے وہ ڈرے جس کے پاس اس کے کاٹے کا منتر نہ ہو۔

سنہ 73ء کا ذکر ہے کہ صوبۂ بہار میں ایک دفعہ یہ ہلہلہ اٹھا کہ فارسی حروف کی بجاے کائستی ہندی حرفوں میں حکماً عدالتی کارروائی کی جائے گی۔ چنانچہ اس پر عمل در آمد ہونے لگا، مسلمان گھبرا اٹھے کہ اب ہمیں نہ تو روزگار ملے گا اور نہ ہماری یہ زبان رہے گی۔ ہم بھی اتّفاق سے دانا پور میں موجود تھے۔ بہتیرے مسلمانوں نے ہندی سیکھنی شروع کر دی اور بہتیرے روزگار چھوڑ دینے پر مستعد ہوگئے۔ با وجودیکہ وہاں کی عدالتوں میں ہندی حروف کا رواج ہو گیا اور شاید صوبہ بہار کا گورنمنٹ گزٹ بھی اسی میں چھپنے لگا، مگر وہاں کی جو اردو زبان تھی وہ آج تک نہ مٹی، اڑتیس برس ہوگئے، وہی شاعری کا چرچا، وہی تصنیف کا ذوق شوق، وہی زبان کی تراش و خراش بنی رہی، یہاں تک کہ آپ کے قلم سے بھی یہی نکلا کہ "آگرہ اور اودھ کے بعد پنجاب، دکن اور بہار کا نمبر ہے، جہاں اردو نے غیر معمولی ترقی کی ہے"۔ جب یہاں اردو زبان کی بیخ کنی نہ ہو سکی تو صوبجات متّحدہ میں اور خاص کر پنجاب میں کیونکر ہوسکتی ہے۔ گو صوبجات متّحدہ میں ناگری حروف عدالتی کارروائی کے واسطے مختص ہوگئے، گوالیار میں مرہٹی و ناگری حروف میں لکھے جانے کی پخ لگ گئی، مگر زبان وہی رہی اور رہے گی۔ پٹیالہ میں گرمکھی کا رواج دیا گیا تو کیا وہاں کے لوگوں کی زبان کٹ گئی۔ اسی طرح اگر بفرض محال اگر تمام پنجاب میں گرمکھی حروف اور پنجابی زبان کا سر رشتۂ تعلیم میں رواج دیا جائے گا تو کیا اردو زبان سلب و مفقود ہوجائے گی، نہیں ہرگز نہیں، یہ ایک ایک کے گھٹ میں بیٹھی ہوئی ہے، دلوں میں اتر گئی ہے، رگ و پے میں پیوست ہوگئی ہے، اس کے الفاظ ملائے بغیر چارہ ہی نہیں۔ قانونی اصطلاحیں، علمی الفاظ اس میں سے نکلنے مشکل اور بسا مشکل ہیں۔ پہلے قانونی اصطلاحوں کو بدلو، عام ملکی مذاق کو چھوڑو، سر رشتۂ تعلیم کے ذخیرہ کا دیوالہ نکالو، جب زبان پر یہ لفظ لا‎ؤ کہ ہماری ہندوستانی زبان جس کی اردو زبان ایک دوسری شان ہے، ترقی سے گر کر تنزّل کے راستے پر پڑنے لگی۔ کوئی زبان جب تک اس کے بولنے والے زندہ رہتے اور بازار کے سودا سلف، رسوم مروّجہ کا اس سے کام پڑتا رہتا ہے کبھی نہیں مرتی۔ ممالک متحدہ میں جس قسم کی تصنیفات کی جب ترقی تھی اسی قسم کی اب ہے، وہی ناول نگاری، وہی انشا پردازی، وہی شاعری اب تک برابر دھوم مچا رہی ہے۔

یہ شور مچانا کہ ہاے! اردو چلی! ہائے! اردو چلی! ہماری زبان کی الٹی کمزوری ثابت کر رہا ہے حالانکہ ہم مخالفوں کی زبان اس کی روز مرّہ نمایاں ترقی اور حالت موجودہ سے کیل سکتے ہیں، لیڈروں کا منہ بند کر سکتے ہیں، گورنمنٹ مانے یا نہ مانے، روساے ہند ساتھ دیں یا نہ دیں، اردو زبان نے وہ ہردلعزیزی اور عمومیت پیدا کر لی ہے کہ یہ مٹی ہے نہ مٹے گی۔ ریلوں میں بیٹھ کر، جہازوں پر سوار ہو کر، ملک در ملک پھر کر دیکھ لو، کہاں کہاں بولی اور سمجھی جاتی ہے، پھر گھبرانے اور تلملانے سے کیا فائدہ؟ اہل اسلام کی یہ گھر کتّی کی بولی ہے اور صاحبان ہنود کی تسلیم و پسند کردہ، ملکی، عام، مہذّب، درباری اور علمی زبان ہے۔ اگر یہ بات نہیں تو اس قدر اور اس کثرت سے صاحبان ہنود میں شاعر، انشا پرداز، ناول نگار، مصنّف، مترجم کیوں ہیں؟ اردو میں صاحبان ہنود، اخبار، رسالے کیوں نکال رہے ہیں۔ اگر وہ ضدّم ضدّا میں آکر ٹھیٹ ہندی کا استعمال بھی کرنا چاہتے ہیں تو کوئی سطر، کوئی عبارت تمھاری اس زبان اور اس کے الفاظ سے خالی نہیں پائی جاتی۔ گو غرض کی جگہ گرج، عرض کی جگہ ارج، قرض کی جگہ کرج، غریب نواز کی جگہ گریب نواج، عقل کی جگہ اکّل، بادشاہ کی جگہ باچھا، حضور کی جگہ ہجور، حضرت کی ہجرت، فرمان کی جگہ پھرمان، حکم کی جگہ ہکم، پیغام کی جگہ پیگام، غافل کی جگہ گاپھل، باتوں کی جگہ باتاں، تکلیفوں کی جگہ تکلیفاں، شرابوں کی جگہ شراباں، قلموں کی جگہ قلماں، گھاتوں کی جگہ گھاتاں، انگریزوں کی جگہ انگریجوں لکھ دیں، مگر کہنے میں یہی آئے گا کہ اردو کا منہ چڑانا ہے۔ اس کے الفاظ کو بگاڑا نہیں بلکہ سنوارنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔

ہم اس بات کے بالکل برخلاف ہیں کہ اردو کے واسطے آل انڈیا کانفرنس، انجمن حامیِ اردو، انجمن ترقیِ اردو قائم کی جائیں اور ان سے یہ بات حاصل ہوجائے کہ آپ کی اردو کو چھوڑنے والے بھی آپ کے ساتھی بن جائیں۔ ترقی دینے کی یہ صورتیں نہیں ہیں، یہ تو نری دھما چوکڑی ہے۔ ترقی کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اس میں جس بات کی کمی ہو اسے پورا کرو اور اس طرح پورا کرو جس طرح کوئی موجد یا کوئی صنّاع اپنی صنعت یا ایجاد میں ایک نہ ایک ایسی نئی بات نکال دیتا ہے کہ اس سے پیشتر کی چیزیں گرد ہو کر بیٹھ جاتی ہیں اور اس کا ایجاد اس کی نئی چیز کو لے اڑتا ہے۔ سب اسی طرف از خود ٹوٹ پڑتے ہیں، نہ کہ واویلا کر کے کسی چیز کو کسی کے سر ڈالنا اور تجربہ کے برخلاف زبانی تعریف سے یقین دلانا، یہ تو ایک دھینگا دھینگی ہوئی نہ کہ ترقی۔

اگر اردو میں کوئی وصف ہے تو وہ منکروں کو اپنا مقر بنائے گی، غیر قوموں کے مصنّفوں کو اپنا ساتھی کر لے گی۔ عدالتی کارروائیوں کو اس زبان کا گرویدہ بنا لے گی اور جو وہ اپنے ذاتی جوہر، ذاتی وصف سے خالی ہے تو یہ غل شور اور اس قدر شورا شوری اپنی آپ تھپڑی پٹوائے گی۔ اس سے پارٹی فیلنگ کا مسئلہ ثابت ہوجائے گا اور یہی ہمارے حق میں گورنمنٹ کی طرف سے مضر پڑے گا۔ تم کسی کو ترغیب نہ دو، کسی کو ساتھی نہ بنا‎ؤ، خود آپ چشمۂ شیریں بنو اور سب کو اپنی طرف کھینچ بلاؤ۔ بلکہ سمجھ لو کہ ناگری سے ڈراؤنے حملے ہمارا کچھ نہیں کر سکتے۔ جو تیر از دست رفتہ ہے اسے کوئی پکڑ کر نہیں لا سکتا، جو بات طشت از بام ہو گئی جس کو ایک ایک شخص نے جان لیا، وہ کبھی قابو میں نہیں آسکتی۔ عدالت لوگوں کو منع نہیں کر سکتی کہ اپنے گھروں میں اردو نہ بولو، شاہی دربار کسی زبان کو اس کے بولنے والوں، شہروں اور گانو گنویں کے رہنے والوں میں سے کبھی نہیں نکال سکتا کہ یہ درباری زبان نہیں ہے اسے نہ بولو۔ سر رشتۂ تعلیم یہ نہیں کر سکتا کہ اگر وہ اس کو ملکی یا علمی زبان قرار نہ دے یا لازمی نہ گردانے تو تمھارے ملک سے بھی یہ زبان خارج البلد ہو جائے۔ جس حالت میں ہر ایک فرقہ کی خاص خاص بولی نہیں بند کی جا سکتی تو اتنی بڑی بولی جو ہندوستان کے ایک بڑے احاطہ کو گھیرے ہوئے ہے اور اس کے بولنے والوں میں سے اگر صرف ایک ہی فرقہ کو لیا جائے تو چھ سات کروڑ اور بصورت دیگر دس بارہ کروڑ اہل ہند اردو زبان بولتے ہیں پھر کیونکر خارج از ملک ہوسکتی ہے۔ ہاں سب کی ایک سرے سے زبانیں نکال لی جائیں اور صرف اشاروں پر کاروبار آن ٹھہرے تو ممکن ہے۔ لیکن غیر ملکوں سے اخراج کرنا پھر بھی ناممکن و دشوار ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ "اہل پنجاب کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں کثیر الاشاعت اخبار و رسائل ہیں، جو بات منہ سے نکالیں غور سے دیکھ لیا کریں کہ اس میں لفظی یا معنوی سقم تو نہیں ہے۔" یہ بات نہایت بودی اور اوچھی ہے اور آپ کے مرکزی دعوے و امید کو زور کے ساتھ توڑتی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ غل غپاڑا کہ آپ کی زبان اردو زبان ہے محض ایک دل لگی اور اوپری دل سے دعویٰ ہے ورنہ اس قول کے موافق آپ کی اردو میں ہر قسم کے سینکڑوں نقص موجود ہیں۔ میں اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرتا کہ لاہور کی اردو میں اس قدر نقص ہیں، میرے نزدیک وہ ایسے عیوب اور نقائص سے پاک ہے۔ اس کے اردو اخباروں نے دہلی کے براے نام اردو اخباروں کو پرے بٹھا دیا ہے۔ اہل لاہور کی زبان میں اگر فرق ہے تو صرف اتنا جتنا کہ اہل زبان اور مقلّد زبان میں ہوا کرتا ہے، پنجاب کے سر رشتۂ تعلیم میں سب سے زیادہ پنجاب یا تعلیم یافتہ اہالیان لاہور نے حصّہ لے رکھا ہے۔ ان کا ترجمہ نہایت صاف اور قابل گرفت عیوب سے مبرّا ہوتا ہے۔ حمایت الاسلام کی کتابیں دیکھو، انشاء اللہ خاں صاحب مالک وطن کے مضامین پڑھو، پیسہ اخبار کے ایڈیٹوریل یا ریڈنگ آرٹیکل مطالعہ کرو۔ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال صاحب کی نظم جن کی مسلم استادی کا سب کو اقبال ہے استماع فرماؤ۔ خان احمد حسین خاں صاحب احمدؔ بی۔ اے کی عاشقانہ غزلیں، نعتیہ اشعار اور ناولوں کی بھرمار گوش زد فرماؤ۔ پرفیسر خواجہ دل محمد صاحب ایم۔ اے کا جنھیں شعراے پنجاب کا دل کہنا چاہیے پاکیزہ کلام ملاحظہ فرماؤ، رسالۂ مخزن پر نظر ڈالو۔ علی ہذا مولوی ظفر علی خاں صاحب بی۔ اے اڈیٹر اخبار زمیندار کی لیاقت، تصانیف، تراجم، اردو بول چال، زور دار مضامین اور نظموں کو دیکھو، کس دھڑلّے کی نظمیں اور مضمون ہیں کہ بڑے بڑے قابل عش عش کرتے ہیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں کچھ عیب ہے؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ رہے خاص خاص محاورے ان کی بات دوسری ہے، ان میں کون نہیں چوکتا، لیکن یہ چوک زبان کے امتحان میں بحالت مجموعی فیل نہیں کر سکتی، پاس ایبل نمبر دلا ہی دیتی ہے۔ اس سے آگے جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہ اس کا نقیض ہے۔

بے شک اس میں ہمیں اتفاق ہے کہ "اردو زبان کی قابلیت رکھنے والا، کسی ملک، کسی شہر، کسی قوم، کسی مذہب کا کیوں نہ ہو وہ قابل قدر اور واجب التعظیم ہے۔" اس میں تعصّب کو راہ دینا گویا انصاف کا خون کرنا اور اہل جوہر کی ترقی کو مٹانا ہے۔ آپ کی یہ راے بھی قرین قیاس ہے کہ اگر کوئی مسئلہ متنازع فیہ یا راے طلب ہو تو کسی لٹریری رسالہ میں پیش کر کے طے کر لیا جائے، مگر یہ بالکل ناواجب ہے کہ دہلی اور لکھنؤ کو بائیکاٹ کر دیا جائے، کیونکہ جب تک زبان کے متعلق اہل زبان کی شرکت نہ ہو وہ فیصلہ انقطاعی یا حتمی قرار نہیں پا سکتا، اہل زبان کی انانیت اول تو سرے سے اپنی سمجھ کی غلطی ہے اور اگر بالفرض ہے تو اس کی پروا نہ کی جائے، ان سے موافق یا نا موافق جواب ضرور لیا جائے۔ جن وجوہ سے وہ فیصلہ کریں گے مقلد بجز اس کے کہ اساتذہ کے کلام، اساتذہ کی تصانیف کو جس میں کاتبوں کی طرف سے غلطیوں کا ہو جانا ممکن ہے، پیش نظر رکھ کر سندیں لائیں اور جواب دیں، اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ ان کی موجودہ زبان نے جو تبدیلیاں کی ہوں گی انھیں بھی دیگر امصار کے اہل قلم نہیں دیکھ سکیں گے۔ ایران کی پہلی اور اب کی زبان ہی کو دیکھ لو، سفرنامۂ شاہ ایران ہی کو پڑھ لو، کس قدر فرق ہو گیا ہے۔ یہی حال دہلی اور لکھنؤ کی زبان کا سمجھ لینا چاہیے۔

کوئی کیسا ہی دعوی کرے، کبھی نہیں دکھا سکتا کہ اہل زبان مقلّد زبان کے کلام یا محاورے کا اتّباع کرے گا۔ اس کے کان، اس کا لب و لہجہ، اس کی زبان کبھی گوارا نہیں کرے گی کہ پوربی بھاکا یا پنجابی آمیز اردو سے سند لے۔ وہ اپنے شہر کے ناخواندہ بچہ کو زبان کے فیصلہ کے واسطے پسند کرلے گا مگر مقلّد زبان کی بات کو ہرگز ہرگز تسلیم نہیں کرے گا۔ اہل انگلینڈ اہل آئرلینڈ کی زبان کو کیوں اپنی زبان پر ترجیح نہیں دیتے؟ کیا آئرلینڈ میں بڑے بڑے فاضل، بڑے بڑے مصنّف، بڑے بڑے انشا پرداز، ناول نگار موجود نہیں ہیں؟ امریکہ کی زبان انگلش کو اہل انگلستان کیوں مستند نہیں سمجھتے؟ حالانکہ اصلاً نسلاً ایک ہی جگہ، ایک ہی نسل اور ایک ہی زبان کے بولنے والے ہیں۔

ہم ہر ایک قابل کی قدر کریں گے، اردو کی خدمت، اردو کی دل سوزی کرنے والے کو اپنا دلی دوست، اپنا دلی ہمدرد اور خیر خواہ سمجھیں گے، خواہ وہ کسی ملک، کسی شہر اور کسی مذہب یا فرقہ کا کیوں نہ ہو۔ مگر قبلہ! یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے اہل زبان اپنی زبان کے کسی فیصلہ کا جج سمجھیں۔ ہاں اگر اس نے دہلی میں جنم لیا ہے، یہاں کی مختلف صحبتیں دیکھی ہیں، شعرا و علما کی خدمت میں رہا ہے، غیر جگہ کے محاورات کو اس نے اپنی زبان پر چڑھا کر اردو میں نہیں ملایا ہے تو بے شک وہ اہل زبان اور یہاں کی زبان کا قاضی القضات ہے، اس میں اگر کوئی جھنجھانوی درک دے تو ہم کھلے خزانے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناحق کی جھنجھٹ ہے اور جو کوئی لاہوری اہل زبان بننے کا دعوی کرے تو ہم ان دلیلوں سے آگے دلیلیں مانگیں گے اور انھیں توڑ توڑ کر انھیں کی زبان میں یہ کہیں گے: لا ہور، لا ہور (لا اَور لا اَور)، یعنی ابھی اور دلیلیں پیش فرمائیے، یہ مکتفی نہیں ہیں۔

ہم نے یہ جو کچھ لکھا ہے، حب الوطنی اور واقعی حالت کی مناسبت سے لکھا ہے۔ جس طرح ہمارے دوست وجاہت نے اپنی وجاہت دکھا کر لاہور میں رہنے کا حق ادا کیا ہے، اسی طرح ہم نے بھی اپنی تحقیقات اور معلومات کے اظہار سے اپنے شہر کو مرکزی حقدار ثابت کیا ہے۔ وگرنہ ابھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، بقول سعدی علیہ الرحمۃ ؎

ندانی کہ ما را سر جنگ نیست

وگرنہ مجال سخن تنگ نیست

ورنہ یہ مضمون اور اس کی ایک ایک شاخ ایک ایک کتاب سے کم نہ ہوتی۔ اس کے ماسوا ہمیں اپنے دوست سے کچھ پرخاش بھی نہ تھی۔ جس طرح انھوں نے اپنی دانست میں نیک نیتی سے کام لیا ہے، اسی طرح ہم نے بھی انصاف کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ہے۔ مبصّران زبان دونوں کے مضامین سامنے رکھ کر آپ فیصلہ کرلیں گے کہ کون غلطی پر ہے اور کون راستی پر، کس نے پھیر کا راستہ اختیار کیا ہے، کس نے سیدھا۔ اور یوں تو ؏

کس نگوید کہ دوغ من ترش است

اپنی اپنی دانست میں وہ بھی حق پر ہیں اور ہم بھی ؎

اندکے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم

کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است

خیر آپس کی سر پھٹول تو چلی ہی جائے گی، مگر دیگر مخالفان زبان کی نسبت ہم اخیر میں اتنا کہہ دینا اور مناسب جانتے ہیں کہ ہمارے اسلامی بھائی دراصل ہندوستانی شائستہ اور مہذب مادری زبان کو اردو کہتے ہیں۔ اس سے پیشتر برج بھاکا اس کے بعد ریختہ اور آخر میں اردو کہنے لگے تھے۔ دہلی کا اردو بازار اب بھی کچھ کھنڈر لیے کھڑا ہے، جس کی بڑی وجہ اس میں مختلف زبانوں کی ایک خوبصورتی، تناسب و خوش اسلوبی کے ساتھ آمیزش ہے اور اسی آمیزش نے اس کا نام اردو ڈال دیا۔ کیونکہ اردوے معلّی کہنے کا اب زمانہ نہیں رہا۔ لفظ معلّی اس کا جانی دشمن اور لفظ شاہجہاں اس کے خون کا پیاسا ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ زبان باقاعدہ ہے، بالترتیب ہے، عام فہم ہے، سہولت پسند ہے۔ علم ادب، علم عروض، علم تاریخ وغیرہ کی بلحاظ تصانیف مختلفہ جان ہے۔ ایک زمانہ میں یہی شاہی زبان تھی۔ مگر اور قومیں جن کو اہل اسلام اور شاہان اسلام سے تعلیم موجودہ نے نفرت دلا دی ہے، وہ ہماری اس مادری زبان کو اردو لقب سے ملقّب ہونا پسند نہیں کرتیں اور اسے خاص اسلامی زبان قرار دیتی ہیں جس کا سبب میرے نزدیک صریح ہٹ دھرمی اور نری مذہبی پچ کے سوا دوسرا نہیں ہے۔ نیز فرقہ آریہ کا یہ ایک ادنی کرشمہ ہے۔ اگر نظر تعمّق سے دیکھا جائے تو جسے اردو کہتے ہیں، اس میں سب سے بڑا حصہ ہندی، پراکرت، پالی اور سنسکرت کے سالم یا بگڑے بگڑائے الفاظ کا ہے، اس کے بعد فارسی کا، فارسی کے بعد عربی، ترکی، یونانی، پرتگالی کا بقدر وسعت۔ اور فی زمانہ انگریزی الفاظ دریاے ذخّار کی رو بن کر اس طرح اس کی رگ رگ میں دوڑ رہے ہیں کہ کوئی جگہ خالی نہیں چھوڑی۔ کوئی دن جاتا ہے کہ اس اردو کو شاہجہانی اردو کی بجاے انگلستانی یا کرانی اردو کہیں گے۔ مگر نہیں جو اس زبان کے اہل، اس کے جوہری اور نقّاد ہیں وہ کھرے کھوٹے کو پرکھ پرکھ کر لے رہے ہیں، میل کھاتے ہوئے الفاظ کو جوں کا توں اور اکھیڑ کی لیتے ہوئے الفاظ کو ٹھیک بنا کر اپنی زبان میں ملا رہے ہیں۔ سپٹمبر کو ستمبر، فیبروئری کو فروری، کلکٹر کو کلٹر، اسٹامپ کو اسٹام، لائن کو لین، آرڈرلی کو اردلی، بوٹل کو بوتل، ریکروٹ کو رنکروٹ، رائفل کو رفل، کمانڈر کو کمانیر، لونگ کلوتھ کو لٹھا، سفر مینا سیپرز انڈ مائنرز کو، ڈمٹی کو گمٹی، لینٹرن کو لالٹین، ڈیپوٹی کو ڈپٹی، سینٹری کو سنتری، ڈزن کو درجن، ٹون ڈیوٹی کو پون ٹوٹی، سیلج کیرج کو سیج گاڑی کر کے کس خوبصورتی سے اپنی زبان کا مانوس جز بنا لیا ہے۔ جو لوگ اردو کے خمیر، اس کی ترتیب اور موزونیت الفاظ سے واقف ہیں وہ اس قسم کا تصرف کیے بغیر نہیں رہتے۔ سکریٹری کو جب کہیں گے سکتّر ہی کہیں گے، لارڈ کو لاٹھ، لفٹیننٹ کو لفٹنٹ، کرنل کو کرنیل بولیں گے۔ اب فرمائیے اس میں انگریزی کے تلفّظ نے بگڑ کر اپنی زبان سے کون سی مغایرت کر لی، انگریز بھی حرف گیر نہ ہوئے اور اردو کے اہل زبان بھی گھر کے گھر رہے۔ ثقیل و غیر مانوس الفاظ کو گھڑ گھڑ کر اپنی زبان کا ہم رشتہ بنایا، جس طرح کوئی بڑھئی کسی بے ڈول اور ان گھڑ لکڑی کو چھیل چھال کر سڈول اور موزوں بنا لیتا ہے، اسی طرح انھوں نے الفاظ کو تراش خراش کر خوش نما بنا لیا۔

اب اگر جھگڑا ہے تو صرف لفظ اردو کا جھگڑا ہے، لیکن اس کو مذہبی پہلو پر لے جانا اور مذہبی قیود کا ایک جز بنا کر اسے مغلوب کرنے یا مٹانے کے درپے ہو جانا، ایسا ہی ہے جیسے کسی درخت پر بیٹھ کر اپنی ہی طرف سے اس کا ٹہنا کاٹنا اور خود گر کر پچھتانا۔

اس زمانہ میں نہ تو پیور ہندی ہی بول چال میں باقی ہے نہ خالص اردو۔ اگر اس مخلوط زبان کو کوئی ہندوستانی کہے تو کچھ حرج نہیں اور جو کوئی اردو زبان سے تعبیر کرے تو بھی کچھ اعتراض نہیں، کیونکہ بے غش نہ ہندوستانی زبان رہی نہ اردو؛ ہر ایک مرکّب ہوگئی اور ہوتی چلی جائے گی۔ یہاں تک کہ برج بھاکا، جو ایک رسیلی، ولولہ انگیز، سلیس اور فصیح زبان تھی اب وہ بھی اپنی اصلی حالت پر نہ رہی مگر پھر بھی اس کی آن لبھائے بغیر نہیں رہتی۔

مسلمانوں میں پردہ نشینوں، علم سے بے بہرہ عورتوں میں اور برج میں وہاں کی دہقانی آبادیوں میں خالص زبان کا پتہ چلتا ہے۔ ورنہ اس زمانہ کی مردانہ تصنیف نے عورتوں کی زبان کو بھی کچھ سے کچھ کر دیا، جس سے دن بدن زبان کا لطف اٹھتا اور اصلیت کا معیار گھٹتا چلا جائے گا۔ مردانہ زبان میں رسالوں، اخباروں وغیرہ کا لکھا جانا اور عورتوں کے واسطے انھیں مخصوص بنانا خالص زبان کے ساتھ علانیہ دشمنی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ عورتوں کو پڑھاؤ لکھاؤ نہیں، مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ اپنے الفاظ کا مفہوم سمجھا کر ان سے ان کی زبان کے سے پیارے اور میٹھے الفاظ بنواؤ، انگریزی لیڈیوں کے سے ملائم نرم اور نازک الفاظ ان کی خلقت کے موافق رواج دو اور دلواؤ، تازہ گھڑے ہوئے الفاظ کو منہ نہ لگانے دو۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا، نکتہ کی بات سنو اور اس پر صاف دل سے عمل کرو۔ دیکھو زبان کو مذہبی پالا بنانا آئندہ کی ترقی، علمی، کتابی اور درباری زبان سے دیس نکالا دینا ہے۔ اگر ایک قوم اس کا نام اردو قائم رکھے جو درحقیقت اس کا صحیح لقب ہے اور دوسری قوم اسے ہندوستانی زبان کہے جو دراصل کچھ بیجا نہیں ہے تو ہمارا کیا نقصان ہے؟ کیونکہ یہ زبان کچھ آج سے نہیں آٹھ نو سو برس سے مخلوط ہو کر گرگٹ کے سے رنگ بدل رہی ہے۔ سنسکرت اور ہندی بھاکا بلحاظ ماخذ ایک اور باعتبار زبان دو جداگانہ زبانیں ہیں۔ بقول فاضل سنسکرت میکس مولر: ہندی ملک ہندوستان کی ایک زندہ زبان ہے اور سنسکرت یعنی ویدوں اور برہمنوں کا لٹریچر ایک دوسری مردہ زبان ہے، گو اس کی اصل وہیں سے ہے جہاں سے سنسکرت نے خروج کیا ہے۔ آج کل کی اردو کی نسبت سر لائل جیسے محقق زبان کی بھی یہی راے ہے کہ "یہ دراصل سولھویں صدی کی ہندی ہے، جس میں حسب ضروت فارسی الفاظ مل گئے ہیں"۔

مسلمانوں نے جس شوق سے ہندی الفاظ کا ذخیرہ اپنی زبان اور اپنی روزمرّہ میں خزانہ سمجھ کر بھرا دوسری قوم اور خاص کر ہند کی آریہ قوم نے اس کے پاسنگ بھی ان کی زبان کی طرف توجہ نہیں کی۔ اگرچہ سکندر لودھی کے زمانہ سے فارسی میں سب سے اول کایستھوں نے اپنا قدم رکھا مگر ان کی فارسی بھی ایک خاص طرز اور ہندی لہجہ آمیز فارسی ہو گئی۔ مسلمانوں میں سب سے اول مقام غزنہ سے ہند میں آکر جس شخص نے ہندی ضخیم دیوان لکھا وہ امیر سعد اللہ مسعود غزنوی تھا، جس کی نسبت محمد عوفی اپنے اس تذکرہ میں جو سنہ 600 ہجری میں لکھا گیا، اس طرح سخن سرا ہوتا ہے کہ اس کے تین دیوان ہیں ایک عربی میں، دوسرا فارسی میں، تیسرا ہندی میں۔ حضرت امیر خسرو اپنی کتاب غرّۃ الکمال میں اس امر کی تصدیق فرماتے اور اس کے تینوں ضخیم دیوانوں کی از حد تعریف کرتے ہیں۔ تقی کاشی کا بیان ہے کہ امیر مسعود غزنہ میں پیدا ہوا، یہ شخص امرا و عمائد غزنوی میں شمار کیا جاتا ہے، جو غزنی کا بخشی اور میر منشی رہا تھا۔ سنائی اس کی تعریف میں لکھتا ہے ؎

اے عمیدے کہ باز غزنی را

صورت و سیرتت گلستاں کرد

حضرت امیر خسرو کے زمانہ میں امیر مسعود کے ہندی شعر مشہور تھے۔ ابو ریحان بیرونی کی کتاب الہند جو محمود غزنوی کے وقت میں لکھی گئی اور اس کی سنسکرت کی لیاقت، علم جوتش، ہندی فلسفہ کی کما حقہ واقفیت دیکھیے جس نے 430 ہجری میں انتقال فرمایا۔ کبیر کے موحدانہ بھجن پڑھیے۔ محمد جائسی کی پدماوت بھاکا کی ملاحظہ فرمائیے۔ امیر خسرو دہلوی کے چوچلے بھری ہندی تصانیف پر نظر ڈالیے۔ عبد الرحیم خاں خانخاناں، فیضی، فیاضی، عبد الجلیل بلگرامی کی سنسکرت دانی کی داد دیجیے۔ جعفر زٹلی کی ہندی زٹل، عبد الرحمن دہلوی کی کتاب جمک ستک یعنی ضلع جگت، دارا شکوہ کی ہندی و سنسکرت سے واقفیت پر توجہ فرمائیے۔ شمس العلماء مولوی سید علی بلگرامی سلمہ اللہ تعالی کی سنسکرت پر بلا مبالغہ عش عش کیجیے اور دیکھ لیجیے کہ مسلمانوں کو اس زبان سے خاص انس اور دلچسپی رہی ہے یا نہیں (افسوس صد افسوس کہ 3 مئی سنہ 11 ء کو رحلت سے داغ مفارقت دے گئے)۔

مقطع کا بند یہ ہے کہ ہندوستانی زبان اور اردو زبان ایک ہی ہے۔ صرف تراش و خراش، اسلوب تربیت و ترکیب اور دلچسپی کا فرق ہے، جس کے سبب ریختہ اور ہندوستانی زبان کہنے کے بجاے اردو زبان کہنا نہایت موزوں ہے جو ہر ایک زبان کے اختلاط کا نتیجہ اور اس کا مزیدار پھل پیش کر رہی ہے۔ ہاں ضد، ہٹ، تعصب کی دھندلی عینک ان خوبیوں کو کیونکر ٹھنڈے پیٹوں دیکھنے دے گی۔

ہمارے نزدیک جو لوگ اردو زبان سے نفرت کر کے اس کی بول چال، انداز گفتگو، طرز لب و لہجہ کو بگاڑیں گے، وہ اپنی ہنسی آپ اڑائیں گے۔ غیر ملک کا کوئی فصیح، کوئی بلیغ، کوئی عالم، کوئی فاضل، کوئی مصنّف، کوئی لکچرار اس زبان کی بے ترتیبی، ان میل الفاظ، عجیب ترکیب و غریب انشا پردازی کو دیکھ کر تمسخر کیے بغیر نہ رہے گا۔ رنگروٹی زبان کا خطاب دے کر چلا جائے گا۔ اس کی انشا پردازی نفرت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور اس کی خوش بیانی سر تا سر اوچھوں اور جاہلوں کی بولی ثابت ہوگی۔ ادھر پادریوں نے ادھر آریوں نے اردو کو اردو کیا، ہندوستانی زبان بھی نہ رکھا، ان کی تصانیف دل پر بوجھ ڈال کر پڑھی اور لکھی جاتی ہے، نہ وہ کتابی زبان ہے، نہ روزمرّہ کی بول چال۔ اردو زبان کے علمی، درباری اور مہذب زبان ہونے میں کچھ کلام نہیں۔ اس کے بالمقابل اگر کوئی اور زبان عام یا ملکی زبان ہے اور وہ ہندوستان کے اس سرے سے اس سرے تک اردو کے الفاظ کی آمیزش کے بغیر بولی جاتی ہے تو اس میں کثرت سے تصنیفات بھی ہوگی اور رسالے یا اخبارات بھی بافراط نکلتے ہوں گے، تاریخی ذخیرہ اس میں ہوگا، سفرناموں کا خزانہ اس میں ملے گا، غرض ہر قسم کی کتابوں اور تصانیف سے معمور ہوگی اور جو اس میں نہ تو ایسا ذخیرہ ہوگا اور نہ وہ عام بولی ہوگی اور نہ کوئی آسانی سے سمجھ سکے گا تو کسی عقلمند کے نزدیک بھی وہ ملکی زبان کا استحقاق نہیں رکھے گی۔

تعجب یہ ہے کہ جو لوگ اردو کو نکّو بناتے اور حقارت کی نظر سے چھی چھی کر کے پرے ہٹ جاتے ہیں وہ بھی اپنی بول چال میں صرف چند ہندی یا سنسکرت بے میل الفاظ ملا کر بولنے پر مجبور ہو ہی جاتے ہیں۔ غرض اس بحث سے اور کچھ ہو یا نہ ہو مگر ہمارے ملک کی زبان کا ستّیاناس غیر قوموں میں جا کر ضرور ہوجائے گا۔ اگر دونوں قومیں مل گئی ہیں اور دل سے ملی ہیں تو اس زبانی جدید امتیاز کو درمیان سے اٹھا دیں۔ اردو اور ہندوستانی زبان کو ایک ہی سمجھیں اور درحقیقت ہیں بھی دونوں ایک ہی مرکّب زبان، آگے اپنی اپنی راے اور اپنی اپنی سمجھ۔

اس کے ساتھ ہی دیوناگری میں لکھنے کا مسئلہ بھی چھڑا ہوا ہے اور حکام وقت کو صحیح تلفظ، زود نویسی اور درست تحریر کے لیے اس سے بہتر حروف نہیں بتائے جاتے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ اس میں زود نویسی کہاں سے آئے گی؟ اول تو ہر ایک حرف کی پوری شکل بنانی پڑتی ہے دوسرے اس کا کوئی اختصاری قاعدہ مقرر نہیں ہے، مگر اردو حرفوں میں ابتدا ہی سے شورٹ ہینڈ کا قاعدہ ڈال کر پورے پورے حرفوں کی شکلوں کی بجاے حرفوں کے صرف سروں، شوشوں یا نقطوں سے کام لیا ہے، بلکہ نقطوں کے بغیر بھی نقطوں کا کام نکل جاتا ہے۔ چنانچہ مشہور ہے کہ عاقلان پیرویِ نقطہ نکنند۔ پس اختصار کے حق میں بھی اردو رسم الخط نہایت موزوں ہے اور اس اختصار کا ہم لوگ چاہیں تو اور اختصار بھی کر سکتے ہیں، لیکن موجودہ ناگری میں یہ بات کیونکر ممکن ہو سکتی ہے۔

اس میں عربی، فارسی الفاظ کا املا کیونکر درست ہوگا جس میں الف کی بجا‏ے عین، عین کی بجاے الف، صاد کی بجاے سین اور سین کی بجاے صاد، علی ہذا ضاد کی بجاے زے اور زے کی بجاے ضاد کچھ سے کچھ معنی پیدا کر دیتا ہے۔ اگر یہ کہو کہ ان الفاظ کی ضرورت ہی کیوں پڑے گی؟ تو ہم اس کو جب تک قانونی کتابوں کا ترجمہ اردو میں موجود ہے، جب تک عدالتوں کی پرانی اور نئی مسلیں ثابت ہیں، جب تک صیغۂ مال کے رجسٹروں میں جاگیروں اور زمینوں کے نام ہیں، جب تک یونیورسٹیوں میں اس زبان کا کچھ نہ کچھ رواج ہے، برابر عربی، فارسی، ترکی الفاظ کی ضرورت پڑے گی۔ مچلکہ ترکی لفظ ہے مگر کس قدر مستعمل ہے۔ اجارہ عربی لفظ ہے مگر ہندی ٹھمریوں تک میں موجود ہے، مثلاً ؎

ایسے تم ہی ہو کیا؟ برج کے اجار دار

موری انگیا کے کر دینے تار تار

چسپاں فارسی لفظ ہے مگر لفظ ثمن چسپاں کرنے کے ساتھ مخصوص ہو گیا ہے۔ علی ہذا عرضی، دعوے، قرقی، طلبانہ، شجرہ بہتیری مثالیں ہیں۔ ہماری راے میں اگر تبدیلی بغیر چارہ ہی نہیں اور نستعلیق سے بھی ناگری حروف بڑھ گئے ہیں تو ناگری کی بجاے تو رومن کا جاری ہونا حاکم و محکوم دونوں کے واسطے مفید ہے۔ رومن ناگری کی نسبت انگریزی حروف میں جلدی بھی لکھی جاتی ہے اور ایک حد تک تلفظ بھی بہت صحیح ادا ہوتا ہے۔ بعض علامتیں جو مقرر ہوگئی ہیں ان پر خیال رکھنا کافی ہے، لیکن ہمارا تجربہ زور کے ساتھ یہی کہتا ہے اور یہی دکھا دے گا کہ حکام کو سب سے زیادہ وقت ناگری کارروائی میں صرف کرنا پڑے گا اور گذشتہ سارا انتظام درہم برہم ہو کر بہت کچھ رعایا سے واویلا مچوائے گا۔ اردو اور ہندوستانی زبان کو فارسی کے نستعلیق خط کے ساتھ ایک خاص مناسبت اور موزونیت ہوگئی ہے، شکستہ لکھنے والوں اور کچّے عدالتی محرّروں نے بے شک اس میں دقتیں پیدا کردی ہیں، تاوقتیکہ عدالتوں میں، اسکولوں میں خوشخطی لازم نہ گردانی جائے گی یہی دقتیں پیش آتی رہیں گی۔ جس قدر ہماری زبان کی تصانیف اور اخبارات یا رسائل ہیں وہ نستعلیق میں لکھے جاتے اور آسانی سے پڑھے جاتے ہیں، نہ تلفظ میں غلطی ہوتی ہے نہ ان کے قیام و روانی کے جملوں میں۔ ندا، ٹھہراؤ یا رہاؤ وغیرہ کی ساری صورتیں بنی رہتی ہیں۔ اگر یہ زبان دوسرے خط میں لکھی گئی، تصانیف کی صحیح قرات ناممکن اور بے لطف ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ سچّے دلی اثر کو اس ناقص اداے تلفظ سے بالکل بے بہرہ کر دے گی۔ فقط





سید احمد دہلوی

12 فروری 1911ء



گزارش شکریہ

صرف دہلی کے اہل زبانوں کو کیا، بلکہ اردو کے کل ہوا خواہوں اور قدر دانوں پر واجب ہے کہ وہ جناب شیخ محمد اشفاق صاحب دہلوی تاجر نامی گرامی کے تہ دل سے شکر گزار ہوں جن کی کوشش و فرمائش سے یہ رسالہ مشتہر ہوا۔ گو بظاہر یہ ایک محاکمہ ہے مگر درحقیقت اردو زبان کی معلومات کا خزانہ ہے جو حامیان اردو کو ہر طرح سے مدد دیتا رہے گا اور چند روز بعد غالباً ڈھونڈے میسر نہ آئے گا۔ کیونکہ کثیر تعداد میں طبع نہیں ہوا ہے۔ فقط

سید احمد دہلوی

مولف فرہنگ آصفیہ وغیرہ وغیرہ