مجھ کو یہ چھیڑ کہ تم سے بھی حسیں ہوتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ کو یہ چھیڑ کہ تم سے بھی حسیں ہوتے ہیں
by صفدر مرزا پوری

مجھ کو یہ چھیڑ کہ تم سے بھی حسیں ہوتے ہیں
ان کو یہ ضد کہ دکھا دو جو کہیں ہوتے ہیں

ان کو ہم سے ہے تعلق نہ ہمیں ان سے غرض
اب یہیں ہوتے ہیں شکوے نہ وہیں ہوتے ہیں

ان سے بچ جائے جو ایماں تو غنیمت سمجھو
خوش نگاہوں میں بہت رہزن دیں ہوتے ہیں

لاکھ وہ ناز سے ٹھکرائیں عدو کی تربت
یہ عجب بات ہے پامال ہمیں ہوتے ہیں

اب تصور میں بھی تصدیق کا آتا ہے مزہ
جب گماں مٹتے ہیں واللہ یقیں ہوتے ہیں

باتیں پیاری ہیں حسینوں کی ادائیں پیاری
عیب یہ ہے کہ وفادار نہیں ہوتے ہیں

اپنے میخانے کو جنت کا بتاتے ہیں جواب
اتنے بے ہوش خرابات نشیں ہوتے ہیں

اک فقط نام کا ہونا ہے جہاں میں ان کا
نہ مکاں ہوتے ہیں صفدرؔ نہ مکیں ہوتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse