مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
by بیخود دہلوی

مجھ کو نہ دل پسند نہ وہ بے وفا پسند
دونوں ہیں خود غرض مجھے دونوں ہیں نا پسند

یہ دل وہی تو ہے جو تمہیں اب ہے نا پسند
معشوق کر چکے ہیں جسے بارہا پسند

جنس وفا کو کرتے ہیں اہل وفا پسند
دشمن کو کیا تمیز ہے دشمن کی کیا پسند

جنت کی کوئی حور نظر پر چڑھی نہیں
دنیا میں مجھ کو ایک پری زاد تھا پسند

روندی کسی نے پائے حنائی سے میری نعش
تھی زندگی میں مجھ کو جو بوئے حنا پسند

وہ بد نصیب ہے جسے آیا پسند تو
قسمت تو اس کی ہے جسے تو نے کیا پسند

چڑتے ہیں وہ سوال سے یہ ہم سمجھ گئے
ہے اس لیے انہیں دل بے مدعا پسند

صورت بھی پیش چشم ہے سیرت بھی پیش چشم
دم بھر میں تو پسند ہے دم بھر میں نا پسند

تجھ کو غرور زہد ہے شرم گنہ مجھے
زاہد کسے خبر کہ خدا کو ہو کیا پسند

چوٹیں چلیں گی خوب برابر کی جوڑ ہے
تو ہے ادا شناس تو میں ہوں ادا پسند

ہر پھر کے ان کی آنکھ عدو سے لڑے نہ کیوں
فتنہ کو کرتی ہے نگہ فتنہ زا پسند

میں خود سکھا رہا ہوں ستم کی ادا انہیں
دنیا میں کب ہوا کوئی مجھ سا جفا پسند

رکھ دیں گے آئینہ کے برابر ہم اپنا دل
یا تو یہ نا پسند ہوا ان کو یا پسند

کس درجہ سادہ لوح ہیں عاشق مزاج بھی
جو ڈھب پہ چڑھ گیا وہ انہیں آ گیا پسند

میرا ہی کیا قصور یہ مجھ پر ستم ہے کیوں
آنکھوں نے دیکھا آپ کو دل نے کیا پسند

انکار سن چکے ہیں طلب گار کیوں بنیں
ملتا نہیں کوئی تو ہے بے فائدہ پسند

بیخودؔ تو مر مٹے جو کہا اس نے ناز سے
اک شعر آ گیا ہے ہمیں آپ کا پسند

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse