مجھ کو نہ دل پسند نہ دل کی یہ خو پسند

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ کو نہ دل پسند نہ دل کی یہ خو پسند
by ریاض خیرآبادی

مجھ کو نہ دل پسند نہ دل کی یہ خو پسند
پہلو سے میرے جائے دل آرزو پسند

تجھ کو عدو پسند ہے وضع عدو پسند
مجھ کو ادا پسند تری مجھ کو تو پسند

روز ازل تھے ڈھیر ہزاروں لگے ہوئے
چپکے سے چھانٹ لائے دل آرزو پسند

تم نے تو آستیں کے سوا ہاتھ بھی رنگے
آیا شہید ناز کا اتنا لہو پسند

اے دل تری جگہ شکن زلف میں نہیں
خو بو تری پسند نہ کافر کو تو پسند

پہنچا جو میں تو دھوم مچی بزم یار میں
آئے ہیں آج ایک بڑے آرزو پسند

مسجد میں ظرف آب نہ تھا کوئی لے چلے
آیا جو میکدے میں اچھوتا سبو پسند

جنت کی حور جیسے کوئی میری قبر پر
اے شمع اس طرح مجھے آئی ہے تو پسند

آتا پسند کاش کچھ ان کا کلام بھی
بزم سخن میں آئے کئی خوش گلو پسند

ہو عکس آئنے میں ترا یا ہو کوئی اور
آیا ہے اک حسین ترے روبرو پسند

دن میں شباب کے وہ بھرے ہیں شباب میں
مسکی ہوئی قبا میں نہیں ہے رفو پسند

میرا مذاق اور ہے مجھ کو تو اے کلیم
پردے کے ساتھ دور سے ہے گفتگو پسند

مے کا نہ میکدے کا نہیں کچھ رہے گا ہوش
آئے خدا کرے نہ کوئی خوب رو پسند

کس طرح اس نے روکے ملایا ہے خاک میں
آیا نہ آنکھ کو بھی ہمارا لہو پسند

کچھ شوق ہے تو اہل خرابات سے ملو
اے صوفیو نہیں یہ ہمیں ہاؤ ہو پسند

آئے گا مے کشو بط مے کا شکار یاد
جنت میں آ گئی جو کوئی آب جو پسند

سو بار سر سے شیخ کے ٹکرا چکے جسے
ہم کو تو میکدے میں وہی ہے سبو پسند

جب پی لگا کے منہ دم افطار رند نے
بوتل کے منہ کی آئی فرشتوں کو بو پسند

ہو جاؤں میں بھی گم کہیں تیری تلاش میں
تیری طرح مجھے ہے تری جستجو پسند

یہ کون ہیں ریاضؔ ہیں رسوائے کوئے یار
آئے ہیں آج بن کے بڑے آبرو‌ پسند

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse