مجھ کو منظور ہے مرنے پہ سبک باری ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ کو منظور ہے مرنے پہ سبک باری ہو
by رشید لکھنوی

مجھ کو منظور ہے مرنے پہ سبک باری ہو
اور احباب کو ہے فکر کفن بھاری ہو

زندگی میں نہ ملا زخم جگر کو مرہم
خیر چادر ہی مری قبر کی زنگاری ہو

یاد ہے روز ازل دل جو گراں ہے کیا غم
میں نے خود کہہ کے لیا تھا کہ ذرا بھاری ہو

آتش حسن جوانان چمن بھڑکا دے
جو گل سرخ کی پتی ہو وہ چنگاری ہو

تیری رحمت کے سہارے پہ گنا کرتا ہوں
ترک کر دوں اگر اس میں بھی گناہ گاری ہو

مجھ سیہ کار کی ہے مہر تو اٹھتی نہیں مہر
میرے اللہ نہ اتنی بھی گراں باری ہو

آج کل پاس ہے پھر نقد دل زار رشیدؔ
پھر کسی غیرت یوسف کی خریداری ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse