مجھ کو عاشق کہہ کے اس کے روبرو مت کیجیو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ کو عاشق کہہ کے اس کے روبرو مت کیجیو
by میر حسن دہلوی

مجھ کو عاشق کہہ کے اس کے روبرو مت کیجیو
دوستاں گر دوست ہو تو یہ کبھو مت کیجیو

جس ادا کا کشتہ ہوں میں وہ رہے میرے ہی ساتھ
اس ادا کو مبتذل اے خوبرو مت کیجیو

وقت رخصت دل نے اتنا ہی کہا رو کر کہ بس
اب پھر آنے کی مرے تو آرزو مت کیجیو

میں تو یوں ہی تم سے دیوانہ سا بکتا ہوں کہیں
اس کے آگے دوستاں یہ گفتگو مت کیجیو

زلف کے کوچہ سے ہو گلشن میں گزرے ہے صبا
آج واں جا کر گلوں کو کوئی بو مت کیجیو

کل کے جھگڑے میں بھلا ہے کس کے یارو حق بطرف
واجبی جو ہو سو کہیو میری رو مت کیجیو

واں حسنؔ ہرگز نہیں ہے ڈھیل پھر جانے میں کچھ
آشنائی پر بھروسہ اس کی تو مت کیجیو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse