مجھ کو خاک در مے خانہ بنایا ہوتا
Appearance
مجھ کو خاک در مے خانہ بنایا ہوتا
پھر اسی خاک سے پیمانہ بنایا ہوتا
جلوہ گر حسن مجازی میں حقیقت ہوتی
کعبۂ دل کو صنم خانہ بنایا ہوتا
نہ مجھے رنگ چمن سے کوئی مطلب ہوتا
صورت سبزۂ بیگانہ بنایا ہوتا
آپ بیتی جو سناتا ہوں تو کہہ دیتے ہیں
اس سے بہتر کوئی افسانہ بنایا ہوتا
مے کشوں کے جو مقدر میں نہ تھے یہ دانے
نخل انگور کو بے دانہ بنایا ہوتا
عمر بھر خانہ خمار میں سر خوش رہتے
زندگی کا یہی پیمانہ بنایا ہوتا
کفر و ایماں میں نہ رہتی یہ کشاکش کیفیؔ
کعبہ و دیر کو مے خانہ بنایا ہوتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |