مجھ کو تو مرض ہے بے خودی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ کو تو مرض ہے بے خودی کا
by جلیل مانکپوری

مجھ کو تو مرض ہے بے خودی کا
زاہد کو گمان ہے مے کشی کا

ہر رنگ ہے تیرے آگے پھیکا
مہتاب ہے پھول چاندنی کا

چل جائے گا کام کچھ کسی کا
منہ مڑ نہ گیا اگر چھری کا

ہر وقت ہیں موت کی دعائیں
اللہ رے لطف زندگی کا

آئینہ بنا رہے ہو دل کو
دل ٹوٹ نہ جائے آرسی کا

ہم کہتے تھے جوڑے میں نہیں پھول
آخر نکلا وہ دل کسی کا

کہیے ابھی اک ادا پہ کٹ جائیں
دم دیکھتے تھے فقط چھری کا

مٹتی نہیں دشمنی کسی کی
رنگ اس میں ہے میری دوستی کا

بوسے کو جگہ ملی لبوں پر
اب رنگ جمے گا کیا مسی کا

پیارے پیارے تھے پھول سے ہونٹھ
دھبا یہ برا لگا مسی کا

اٹھلا اٹھلا کے ان کو چلنا
مٹ جائے بلا سے دل کسی کا

پاتے ہیں جو مجھ کو جی سے بیزار
کہتے ہیں مزہ ہے عاشقی کا

ہوں ایک سے سب حسین کیوں کر
ہے رنگ جدا کلی کلی کا

پہلے تو تھے محو دید موسیٰ
اب لیتے مزہ ہیں بے خودی کا

سمجھے تھے نہ ہم کو تم پہ مرنا
ہو جائے گا روگ زندگی کا

شوخی مضمون کی لے اڑی ہے
عالم ہے شعر میں پری کا

کھینچیں جو وہ تیر دل بھی دے ساتھ
حق کچھ تو ادا ہو دوستی کا

نالے بلبل کے تھے کہ چھریاں
دل ٹکڑے ہوا کلی کلی کا

اٹھنے نہ دیا کسی کے در سے
احسان ہے مجھ پہ لاغری کا

پھولوں سے کہو کہ روتی ہے اوس
اب اس سے مزہ نہیں ہنسی کا

کہتے تھے نہ ہم جلیلؔ تم سے
انجام برا ہے دل لگی کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse