مجھ پر ان کا عتاب ہو ہی گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ پر ان کا عتاب ہو ہی گیا  (1895) 
by رنج حیدرآبادی

مجھ پر ان کا عتاب ہو ہی گیا
جان پر اک عذاب ہو ہی گیا

دل مرا آخر اے غم جاناں
تیرے ہاتھوں خراب ہو ہی گیا

لاکھ چاہا بچائے اس سے خدا
عشق خانہ خراب ہو ہی گیا

غیر نے امتحان دے ہی دیا
بے حیا کامیاب ہو ہی گیا

میکدے سے گیا جو مسجد کو
مجھ کو حاصل ثواب ہو ہی گیا

آپ کا اور میرا افسانہ
شہر میں انتخاب ہو ہی گیا

آخر اک روز وہ بت کافر
حسن میں لا جواب ہو ہی گیا

اس نے کی غیر کی طرف داری
یہ بھی روز حساب ہو ہی گیا

غش ہے زاہد شراب کوثر پر
اس کو شوق شراب ہو ہی گیا

دیکھنا نامہ بر کی طراری
یہ بھی حاضر جواب ہو ہی گیا

دشمنوں کی مراد بر آئی
دوستوں پر عتاب ہو ہی گیا

ایک دو وقت کے وہ ملنے میں
غیر سے بے حجاب ہو ہی گیا

وہ نہ اٹھے بغیر جان لئے
ان کا مقصد شتاب ہو ہی گیا

باتوں باتوں میں رنجؔ رنجؔ ان سے
آخر اک دن جناب ہو ہی گیا

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse