مجھ قبر سے یار کیونکے جاوے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ قبر سے یار کیونکے جاوے
by ولی عزلت

مجھ قبر سے یار کیونکے جاوے
ہے شمع مزار کیونکے جاوے

رہتا ہے رقیب نت تیرے سنگ
چھاتی کا پہاڑ کیونکے جاوے

حیراں ہوئے بسکہ منہ تیرا دیکھ
گلشن سے بہار کیونکے جاوے

ہے ہجر کی رات سنسناتی
ناگن سے پھنکار کیونکے جاوے

نت ہے مرا کینہ اس کے دل میں
پتھر سے شرار کیونکے جاوے

کس وجہ اٹھے وہ منہ سے یہ دل
گلشن سے ہزار کیونکے جاوے

گلزار کو فصل گل میں عاشق
پے لالۂ داغدار کیونکے جاوے

ہے بزم بتوں سے شیخ محروم
جنت میں حمار کیونکے جاوے

منہ سے تیرے سرکے زلف کس وجہ
گلزار سے مار کیونکے جاوے

کیوں کر کروں ضبط آہ قاتل
گھائل سے پکار کیونکے جاوے

جیتا ہے اسی گلی میں عزلتؔ
جب جی دیا ہار کیونکے جاوے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse