مجھ سے کیوں کہتے ہو مضموں غیر کی تحریر کا
مجھ سے کیوں کہتے ہو مضموں غیر کی تحریر کا
جانتا ہوں مدعا میں آپ کی تقریر کا
ساتھ گر سونے نہ دو گے تم کو بھی نیند آ چکی
میں تو عادی ہو گیا ہوں نالۂ شب گیر کا
اپنے مطلب کی سمجھ کر ہو گئے تھے ہم تو خوش
کیوں مکرتے ہو یہی مطلب ہے اس تقریر کا
عہد کس کا، آپ جو کہتے اسے سچ جانتا
کیا کروں قائل ہوں میں تو غیر کی تدبیر کا
کچھ اثر ان پر ہوا تو کیا ہی دیتے ہیں فریب
کہتے ہیں قائل نہیں میں آہ بے تاثیر کا
یہ تو فرماؤ کہ کیا اس کو کروں گا میں معاف
میرے آگے ذکر کیوں ہے غیر کی تقصیر کا
ایک دن سن کر چلے آئے تھے وہ بے ساختہ
آسماں پر ہے دماغ اب آہ بے تاثیر کا
پنجۂ الفت سے پکڑا ہے اسے دل نے مرے
سہل ہے قاتل کوئی پہلو سے کھنچنا تیر کا
کوشش بے جا تھی یہ کچھ اعتماد عقل پر
اب یہ درجہ ہے کہ قائل ہی نہیں تدبیر کا
جتنے سر ہیں اتنے سودے کیا خطا ناصح مری
میں ہی اک قیدی نہیں اس زلف عالمگیر کا
کیا کہا تھا میں نے تم کیا سمجھے اس کا کیا علاج
تم ہی منصف ہو یہ مطلب تھا مری تقریر کا
یہ مرا لکھا کہ جو تدبیر کی الٹی پڑی
اور اس پر بھی مجھے شکوہ نہیں تقدیر کا
جذب الفت اس کو کہتے ہیں کہیں پڑ جائے ہاتھ
زخم دل پر ہی پہنچتا ہے تری شمشیر کا
مجھ کو اس کے پاس جانا اس میں جو کچھ ہو نظامؔ
ایک مطلب جانتا ہوں ذلت و توقیر کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |