مجھ سے عاشق کے تئیں مار کے کیا پاوے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ سے عاشق کے تئیں مار کے کیا پاوے گا
by مرزا جواں بخت جہاں دار

مجھ سے عاشق کے تئیں مار کے کیا پاوے گا
مفت بدنامی تجھے ہووے گی پچھتاوے گا

جو ترا عاشق رفتار ہے جوں نقش قدم
تیرے کوچے کے تئیں چھوڑ کہاں جاوے گا

غیر کے کہنے پر اے یار نہ کہیو ہرگز
یہ سمجھ رکھیو وہ شیطان ہے بہکاوے گا

دہر میں تیرے فریبوں سے اے شوخ عیار
کم کوئی ہوگا نہ دل جس کا دغا پاوے گا

یار کو طرز جفا سے نہیں رکھنے کا باز
ناصحا ہر گھڑی مجھ کو ہی تو سمجھاوے گا

آشنائی نہ جہاں دارؔ سے توڑ اے پیارے
ایسا عاشق نہ جہاں میں تو کوئی پاوے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse