مجھ سے اب صاف بھی ہو جا یوں ہی یار آپ سے آپ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ سے اب صاف بھی ہو جا یوں ہی یار آپ سے آپ
by بخش ناسخ

مجھ سے اب صاف بھی ہو جا یوں ہی یار آپ سے آپ
جس طرح ہے تری خاطر میں غبار آپ سے آپ

کب کہا آتش فرقت سے جلایا تو نے
ہیں مرے نالۂ دل صاعقہ بار آپ سے آپ

خار تدبیر ہے پیش گل تقدیر عبث
وقت پر باغ میں آتی ہے بہار آپ سے آپ

دونوں عالم میں اگر ایک نہیں شعبدہ باز
جمع کیوں کر ہوئے اضداد یہ چار آپ سے آپ

نہیں آتا جو وہ خورشید مرے گھر میں نہ آئے
صبح ہو جائے گی آخر شب تار آپ سے آپ

کچھ شکایت نہیں عشق کمر نازک کی
ہو گیا ہوں میں صنم زار و نزار آپ سے آپ

او وجود چمن آرائے ازل کے منکر
خود بخود گل ہوئے موجود نہ خار آپ سے آپ

سرخ پوشاک پہن کر وہ سہی قد جو گیا
جل اٹھے سرو چمن مثل چنار آپ سے آپ

زلف کو چھو کے پڑا ہے جو بلا میں اے دل
کاٹ کھاتا ہے کسی کو کوئی مار آپ سے آپ

کچھ تری تیغ جفا کی نہیں تقصیر اے گل
صورت غنچہ مرا دل ہے فگار آپ سے آپ

غیر کا منہ ہے کہ لے بوسے ترے او ظالم
نیلگوں ہو گئے ہوں گے یہ عذار آپ سے آپ

نالہ کش مثل جرس کیوں ہے عبث اے مجنوں
صبر کر آئے گی جمازہ سوار آپ سے آپ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.