مجھ سے آزردہ جو اس گل رو کو اب پاتے ہیں لوگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ سے آزردہ جو اس گل رو کو اب پاتے ہیں لوگ
by غمگین دہلوی

مجھ سے آزردہ جو اس گل رو کو اب پاتے ہیں لوگ
اور ہی رنگت سے کچھ کچھ آ کے فرماتے ہیں لوگ

جب سے جانا بند میرا ہو گیا اے ہمدمو
تب سے ان کے گھر میں ہر ہر طرح کے آتے ہیں لوگ

میرے آہ سرد کی تاثیر اس کے دل میں دیکھ
ہائے کس کس طرح مجھ پر اس کو گرماتے ہیں لوگ

جب وہ گھبراتے تھے مجھ سے تب تھے ان کے گھر کے خوش
اب جو وہ خوش ہیں تو ان کے گھر کے گھبراتے ہیں لوگ

کوئی سمجھاؤ انہیں بہر خدا اے مومنو
اس صنم کے عشق میں جو مجھ کو سمجھاتے ہیں لوگ

روز ہجراں تو دکھایا سو فریبوں سے مجھے
دیکھیے اب اور کیا کیا ہائے دکھلاتے ہیں لوگ

جو لگاتے تھے بجھاتے تھے ہمیشہ ان سے آہ
وہ ہی اب ناچار غمگیںؔ مجھ سے شرماتے ہیں لوگ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse