مجھ سا نہ دے زمانے کو پروردگار دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ سا نہ دے زمانے کو پروردگار دل
by داغ دہلوی

مجھ سا نہ دے زمانے کو پروردگار دل
آشفتہ دل فریفتہ دل بے قرار دل

ہر بار مانگتی ہیں نیا چشم یار دل
اک دل کے کس طرح سے بناؤں ہزار دل

مشہور ہو گئی ہے زیارت شہید کی
خوں کشتہ آرزو کا بنا ہے مزار دل

یہ صید گاہ عشق ہے ٹھہرائیے نگاہ
صیاد مضطرب سے نہ ہوگا شکار دل

طوفان نوح بھی ہو تو مل جائے خاک میں
اللہ رے غبار ترا پر غبار دل

پوچھا جو اس نے طالب روز جزا ہے کون
نکلا مری زباں سے بے اختیار دل

کرتے ہو عہد وصل تو اتنا رہے خیال
پیمان سے زیادہ ہے ناپائیدار دل

تاثیر عشق یہ ہے ترے عہد حسن میں
مٹی کا بھی بنائیں تو ہو بے قرار دل

اس کی تلاش ہے کہ نظر آئے آرزو
ظالم نے روز چاک کئے ہیں ہزار دل

عالم ہوا تمام رہا اس کو شوق حور
برسائے آسمان سے پروردگار دل

پہلے پہل کی چاہ کا کیجے نہ امتحاں
آنا تو سیکھ لے ابھی دو چار بار دل

نکلے مری بغل سے وہ ایسے تڑپ کے ساتھ
یاد آ گیا مجھے وہیں بے اختیار دل

اے عندلیب تجھ کو لگے کب ہوائے عشق
کلیوں کی طرح تجھ میں نہ پھوٹے ہزار دل

عاشق ہوئے وہ جیسے عدو پر یہ حال ہے
رکھ کہہ کے ہاتھ دیکھتے ہیں بار بار دل

اس نے کہا ہے صبر پڑے گا رقیب کا
لے اور بے قرار ہوا بے قرار دل

بیتاب ہو کے بزم سے اس کی اٹھا دیا
غافل میں ہوں مگر ہے بہت ہوشیار دل

مشہور ہیں سکندر و جم کی نشانیاں
اے داغؔ چھوڑ جائیں گے ہم یادگار دل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse