مجھ سا بھی کوئی عشق میں ہے بد گماں نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھ سا بھی کوئی عشق میں ہے بد گماں نہیں
by مفتی صدر الدین خان آزردہ

مجھ سا بھی کوئی عشق میں ہے بد گماں نہیں
کیا رشک دیکھ کر مجھے رنگ خزاں نہیں

آنکھوں سے دیکھ کر تجھے سب ماننا پڑا
کہتے تھے جو ہمیشہ چنیں ہے چناں نہیں

اٹھ کر سحر کو سجدۂ مستانہ کے سوا
طاعت قبول خاطر پیر مغاں نہیں

افسردہ دل ہو در در رحمت نہیں ہے بند
کس دن کھلا ہوا در پیر مغاں نہیں

اے جذب شوق رحم کہ مد نظر ہے یار
جا سکتی واں تلک نگہ ناتواں نہیں

شب اس کو حال دل نے جتایا کچھ اس طرح
ہیں لب تو کیا نگہ بھی ہوئی ترجماں نہیں

کٹتی کسی طرح سے نہیں یہ شب فراق
شاید کہ گردش آج تجھے آسماں نہیں

اچھا ہوئی نکل گئی آہ حزیں کے ساتھ
اک قہر تھی بلا تھی قیامت تھی جاں نہیں

جانے ہے دل فلک کا مری سخت جانیاں
ان ناتوانیوں کو پہنچتی تواں نہیں

کہتا ہوں اس سے کچھ میں نکلتا ہے منہ سے کچھ
کہنے کو یوں تو ہے گی زباں اور زباں نہیں

مہکا ہوا ہے بیت حزن دیکھنا کوئی
آیا نسیم مصر کا ہو کارواں نہیں

لب بند ہوں تو روزن سینہ کو کیا کروں
تھمتا تو مجھ سے نالۂ آتش عناں نہیں

کیا کچھ نہ کر دکھاؤں پر اک دن کے واسطے
ملتا بھی ہم کو منصب ہفت آسماں نہیں

وہ شاخ نخل خشک ہوں میں کنج باغ میں
دیکھے ہے بھول کر بھی جسے باغباں نہیں

بے وقت آئے دیر میں کیا شورشیں کریں
ہم پیرو پیر میکدہ بھی نوجواں نہیں

آزردہؔ نے پڑھی غزل اک مے کدہ میں کل
وہ صاف تر کہ سینہ پیر مغاں نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse