Jump to content

مجھ بلانوش کو تلچھٹ بھی ہے کافی ساقی

From Wikisource
مجھ بلانوش کو تلچھٹ بھی ہے کافی ساقی
by رند لکھنوی
316638مجھ بلانوش کو تلچھٹ بھی ہے کافی ساقیرند لکھنوی

مجھ بلانوش کو تلچھٹ بھی ہے کافی ساقی
بھر دے چلو میں جو ہو شیشے میں باقی ساقی

بھر کے پلواتا نہیں ایک پیالی ساقی
ساری میں مانگتا ہوں دیتا ہے آدھی ساقی

تو نے کیا آتش حل کردہ پلا دی ساقی
بھون ڈالا ہے جگر آگ لگا دی ساقی

پھول مانگوں تو پلاتا ہے برانڈی ساقی
کرتا ہے بزم گزشتہ کی تلافی ساقی

جام جم چاہئے رندوں کو نہ شاہی ساقی
سلطنت ہے ترے کوچے کی گدائی ساقی

جام اوروں کو دیے مجھ کو پیالی ساقی
خود بہکنے لگا مانند شرابی ساقی

کیا کروں پی کے بھلا ایک پیالی ساقی
اس تنک ظرفی کا بندہ نہیں عادی ساقی

کب سے کہتا ہوں بلانوش میں ساقی ساقی
اور پلوا دے جو ہو شیشہ میں باقی ساقی

مرض ہجر میں مے گرچہ مضر ہے لیکن
میں تو پی جاتا ہوں اللہ ہے ساقی ساقی

صبح سے شام تلک ہاتھ سے چھٹتا نہیں جام
چاہئے اپنا تخلص کرے جامی ساقی

مصلحت ہوگی جو محروم رکھا مے سے مجھے
فعل حکمت سے نہیں ہے ترا خالی ساقی

مست کیا جانیں کدھر دیر ہے کعبہ ہے کہاں
عمر ساری تری بھٹی میں گزاری ساقی

مسجد و دیر و کلیسا کی وہ رونق نہ رہی
تو نے بنیاد جو مے خانے کی ڈالی ساقی

دیکھیے صحبت نا جنس نبھے گی کیوں کر
پست ہمت تو طبیعت مری عالی ساقی

فصل گل آ چکی کیا دور سے دہکاتا ہے
مئے گل رنگ سے بھر بھر کے گلابی ساقی

واعظو ووہی کروں گا میں جو فتویٰ دے گا
قبلہ و کعبہ و مرشد مرا ہادی ساقی

شیشہ و جام و سبو ہوں گے ابھی چکناچور
مست بہکے تو بڑی ہوگی خرابی ساقی

کوئی آفت ترے مے خانے پہ آ سکتی ہے
سب دعا گو ہیں یہ جتنے ہیں شرابی ساقی

صرف للٰلہ بھی مے خانے میں جاری کر دے
مقتضی ہو جو تری ہمت عالی ساقی

تنگ ہو کر ترے ہر بار کے دہکانے سے
کوس بیٹھے نہ کوئی رند شرابی ساقی

جو پیے گا نہ شراب آج وہ مجرم ہوگا
کو بہ کو کل سے تو کر دے یہ منادی ساقی

درد بھی مجھ کو پلا دے گا تو بد مستی میں
سب سنا دوں گا میں دیوان زلالی ساقی

برف پلوا کے کلیجہ مرا ٹھنڈا کر دے
آب انگور نے تو آگ لگا دی ساقی

تیرا جی چاہے تو پلوا دے کوئی جام شراب
ہاتھ پھیلانے کا بندہ نہیں عادی ساقی

نفس گرم کی تاثیر نے مے ساغر سے
شعلۂ لفظ کے مانند اڑا دی ساقی

اور تو حسرتیں سب رندؔ کے دل سے نکلیں
جام کوثر کی تمنا رہی باقی ساقی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.