مجھے گھر یاد آتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھے گھر یاد آتا ہے
by میراجی

سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمیں کہہ دو
یہ پھیلا آسماں اس وقت کیوں دل کو لبھاتا تھا
ہر اک سمت اب انوکھے لوگ ہیں اور ان کی باتیں ہیں
کوئی دل سے پھسل جاتی کوئی سینہ میں چبھ جاتی
انہی باتوں کی لہروں پر بہا جاتا ہے یہ بجرا
جسے ساحل نہیں ملتا
میں جس کے سامنے آؤں مجھے لازم ہے ہلکی مسکراہٹ میں کہیں یہ ہونٹ تم کو
جانتا ہوں دل کہے 'کب چاہتا ہوں میں'
انہی لہروں پہ بہتا ہوں مجھے ساحل نہیں ملتا

سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمیں کہہ دو
وہ کیسی مسکراہٹ تھی بہن کی مسکراہٹ تھی، میرا بھائی بھی ہنستا تھا
وہ ہنستا تھا بہن ہنستی ہے اپنے دل میں کہتی ہے
یہ کیسی بات بھائی نے کہی دیکھو وہ اماں اور ابا کو ہنسی آئی
مگر یوں وقت بہتا ہے تماشا بن گیا ساحل
مجھے ساحل نہیں ملتا

سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمیں کہہ دو
یہ کیسا پھیر ہے تقدیر کا یہ پھیر تو شاید نہیں لیکن
یہ پھیلا آسماں اس وقت کیوں دل کو لبھاتا ہے

حیات مختصر سب کی بہی جاتی ہے اور میں بھی
ہر اک کو دیکھتا ہوں مسکراتا ہے کہ ہنستا ہے
کوئی ہنستا نظر آئے کوئی روتا نظر آئے
میں سب کو دیکھتا ہوں دیکھ کر خاموش رہتا ہوں
مجھے ساحل نہیں ملتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse