مجھے کیا دیکھ کر تو تک رہا ہے
Appearance
مجھے کیا دیکھ کر تو تک رہا ہے
ترے ہاتھوں کلیجہ پک رہا ہے
جہاں کیونکر نہ ہو نظروں میں تاریک
ترا منہ زلف نیچے ڈھک رہا ہے
تمہاری نا قدر دانی کا افسوس
ہمارے جی میں مرتے تک رہا ہے
خدا کے واسطے اس سے نہ بولو
نشے کی لہر میں کچھ بک رہا ہے
پھرا اب تک نہیں حاتمؔ کا قاصد
خدایا راہ میں کیا تھک رہا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |