مجھے فریب وفا دے کے دم میں لانا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھے فریب وفا دے کے دم میں لانا تھا
by ہجر ناظم علی خان

مجھے فریب وفا دے کے دم میں لانا تھا
یہ ایک چال تھی ان کی یہ اک بہانا تھا

نہ درد تھا نہ خلش تھی نہ تلملانا تھا
کسی کا عشق نہ تھا وہ بھی کیا زمانا تھا

کھلی جو آنکھ تو صیاد کے قفس میں کھلی
نہ باغ تھا نہ چمن تھا نہ آشیانا تھا

مرے نصیب میں تھی موت اس بہانے سے
کسی کا عشق مری موت کا بہانا تھا

کوئی کسی کا نہیں اس جگہ یہ محشر ہے
وہ دن گئے کہ ستم گر ترا زمانا تھا

ترے جمال کو تھا کوہ طور سے کیا کام
نگاہ بن کے مری آنکھ میں سمانا تھا

خبر کسے تھی کہ زانو سے سر اٹھا دوگے
ہمیں سے چوک ہوئی آپ میں نہ آنا تھا

ہزار رنج ہیں اب یہ بھی اک زمانا ہے
کوئی ملال نہ تھا وہ بھی اک زمانا تھا

پیامبر کہیں رستے ہی سے نہ پھر آئے
تجھے بھی اے دل بیتاب ساتھ جانا تھا

رقیب سے نہ کبھی حال درد دل کہتے
غرض یہ تھی کہ انہیں اس طرح سنانا تھا

سنا کیا کوئی خلوت میں رات بھر اے ہجرؔ
عجیب طرح کا دل کش مرا فسانہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse