مجھے شکوہ نہیں برباد رکھ برباد رہنے دے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھے شکوہ نہیں برباد رکھ برباد رہنے دے
by بیدم وارثی

مجھے شکوہ نہیں برباد رکھ برباد رہنے دے
مگر اللہ میرے دل میں اپنی یاد رہنے دے

قفس میں قید رکھ یا قید سے آزاد رہنے دے
بہر صورت چمن ہی میں مجھے صیاد رہنے دے

مرے ناشاد رہنے سے اگر تجھ کو مسرت ہے
تو میں ناشاد ہی اچھا مجھے ناشاد رہنے دے

تری شان تغافل پر مری بربادیاں صدقے
جو برباد تمنا ہو اسے برباد رہنے دے

تجھے جتنے ستم آتے ہیں مجھ پر ختم کر دینا
نہ کوئی ظلم رہ جائے نہ اب بیداد رہنے دے

نہ صحرا میں بہلتا ہے نہ کوئے یار میں ٹھہرے
کہیں تو چین سے مجھ کو دل ناشاد رہنے دے

کچھ اپنی گزری ہی بیدمؔ بھلی معلوم ہوتی ہے
مری بیتی سنا دے قصۂ فرہاد رہنے دے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse