مجھے خیال ہوا اور عدو کو خواب ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھے خیال ہوا اور عدو کو خواب ہوا
by مرزا رحیم الدین حیا

مجھے خیال ہوا اور عدو کو خواب ہوا
نصیب پر نہ ہوا یہ کہ ایک عذاب ہوا

ہوئی لبوں کو نہ جنبش کہ بس عتاب ہوا
تمہارا نام نہ لینا ہوا عذاب ہوا

ایک اژدہام ہے اس شوخ کی گلی میں آج
مرے نصیب سے محشر بپا شتاب ہوا

بگاڑی خو تری کس نے بتا تو اے ظالم
زباں پہ بوسہ کا نام آتے ہی عتاب ہوا

گلی گلی مرا لاشہ لئے پھرا قاتل
پس از فنا بھی یہ مردہ مرا خراب ہوا

عجب طرح کا ہے دل سنگ اس کا ورنہ حیاؔ
مرے تڑپنے پہ دشمن کا زہرہ آب ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse