مجھے خبر نہیں غم کیا ہے اور خوشی کیا ہے
مجھے خبر نہیں غم کیا ہے اور خوشی کیا ہے
یہ زندگی کی ہے صورت تو زندگی کیا ہے
فغاں تو عشق کی اک مشق ابتدائی ہے
ابھی تو اور بڑھے گی یہ لے ابھی کیا ہے
تمام عمر اسی رنج میں تمام ہوئی
کبھی یہ تم نے نہ پوچھا تری خوشی کیا ہے
تم اپنے ہو تو نہیں غم کسی مخالف کا
زمانہ کیا ہے فلک کیا ہے مدعی کیا ہے
صلاح کار بنایا ہے مصلحت سے اسے
وگرنہ ناصح ناداں کی دوستی کیا ہے
دلوں کو کھینچ رہی ہے کسی کی مست نگاہ
یہ دل کشی ہے تو پھر عذر مے کشی کیا ہے
مذاق عشق کو سمجھو گے یوں نہ تم ناصح
لگا کے دل کہیں دیکھو یہ دل لگی کیا ہے
وہ رات دن نہیں ملتے تو ضد نہ کر احسنؔ
کبھی کبھی کی ملاقات بھی بری کیا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.
Public domainPublic domainfalsefalse