مجھے جلووں کی اس کے تمیز ہو کیا میرے ہوش و حواس بچا ہی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھے جلووں کی اس کے تمیز ہو کیا میرے ہوش و حواس بچا ہی نہیں
by بیدم وارثی

مجھے جلووں کی اس کے تمیز ہو کیا میرے ہوش و حواس بچا ہی نہیں
ہے یہ بے خبری کہ خبر ہی نہیں وہ نقاب اٹھا کہ اٹھا ہی نہیں

مرے حال پہ چھوڑ طبیب مجھے کہ عذاب ہے مری زیست مجھے
میرا مرنا ہی میرے لیے ہے شفا میرے درد کی کوئی دوا ہی نہیں

اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے کھو گئے ہمیں ہوا کیا اور کیا ہو گئے ہم
ہمیں پہروں تک اپنی خبر ہی نہیں ہمیں کوسوں تک اپنا پتا ہی نہیں

مرا حال خراب سنا تو کہا کہ وہ سامنے میرے نہ آئے کبھی
مجھے روتے جو دیکھا تو ہنس کے کہا کہ یہ شیوۂ اہل وفا ہی نہیں

جہاں کوئی ستم ایجاد کیا مجھے کہہ کے فلک نے یہ یاد کیا
کہ بس ایک دل بیدمؔ کے سوا کوئی قابل مشق جفا ہی نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse