مجھے جانا ہے اک دن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھے جانا ہے اک دن
by مجاز لکھنوی

مجھے جانا ہے اک دن تیری بزم ناز سے آخر
ابھی پھر درد ٹپکے گا مری آواز سے آخر
ابھی پھر آگ اٹھے گی شکستہ ساز سے آخر
مجھے جانا ہے اک دن تیری بزم ناز سے آخر

ابھی تو حسن کے پیروں پہ ہے جبر حنا بندی
ابھی ہے عشق پر آئین فرسودہ کی پابندی
ابھی حاوی ہے عقل و روح پر جھوٹی خداوندی
مجھے جانا ہے اک دن تیری بزم ناز سے آخر

ابھی تہذیب عدل و حق کی کشتی کھے نہیں سکتی
ابھی یہ زندگی داد صداقت دے نہیں سکتی
ابھی انسانیت دولت سے ٹکر لے نہیں سکتی
مجھے جانا ہے اک دن تیری بزم ناز سے آخر

ابھی تو کائنات اوہام کا اک کارخانہ ہے
ابھی دھوکا حقیقت ہے حقیقت اک فسانہ ہے
ابھی تو زندگی کو زندگی کر کے دکھانا ہے
مجھے جانا ہے اک دن تیری بزم ناز سے آخر

ابھی ہیں شہر کی تاریک گلیاں منتظر میری
ابھی ہے اک حسیں تحریک طوفاں منتظر میری
ابھی شاید ہے اک زنجیر زنداں منتظر میری
مجھے جانا ہے اک دن تیری بزم ناز سے آخر

ابھی تو فاقہ کش انسان سے آنکھیں ملانا ہے
ابھی جھلسے ہوئے چہروں پہ اشک خوں بہانا ہے
ابھی پامال جور آدم کو سینے سے لگانا ہے
مجھے جانا ہے اک دن تیری بزم ناز سے آخر

ابھی ہر دشمن نظم کہن کے گیت گانا ہے
ابھی ہر لشکر ظلمت شکن کے گیت گانا ہے
ابھی خود سرفروشان وطن کے گیت گانا ہے
مجھے جانا ہے اک دن تیری بزم ناز سے آخر

کوئی دم میں حیات نو کا پھر پرچم اٹھاتا ہوں
بایمائے حمیت جان کی بازی لگاتا ہوں
میں جاؤں گا میں جاؤں گا میں جاتا ہوں میں جاتا ہوں
مجھے جانا ہے اک دن تیری بزم ناز سے آخر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse