مجھے اپنی پستی کی شرم ہے تری رفعتوں کا خیال ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھے اپنی پستی کی شرم ہے تری رفعتوں کا خیال ہے
by اختر شیرانی

مجھے اپنی پستی کی شرم ہے تری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کو میں کیا کروں اسے پھر بھی شوق وصال ہے

اس ادا سے کون یہ جلوہ گر سر بزم حسن خیال ہے
جو نفس ہے مست بہار ہے جو نظر ہے غرق جمال ہے

انہیں ضد ہے عرض وصال سے مجھے شوق عرض وصال ہے
وہی اب بھی ان کا جواب ہے وہی اب بھی میرا سوال ہے

تری یاد میں ہوا جب سے گم ترے گم شدہ کا یہ حال ہے
کہ نہ دور ہے نہ قریب ہے نہ فراق ہے نہ وصال ہے

تری بزم خلوت لا مکاں ترا آستاں مہ و کہکشاں
مگر اے ستارۂ آرزو مجھے آرزوئے وصال ہے

میں وطن میں رہ کے بھی بے وطن کہ نہیں ہے ایک بھی ہم سخن
ہے کوئی شریک غم و محن تو وہ اک نسیم شمال ہے

میں بتاؤں واعظ خوش نوا ہے جہان و خلد میں فرق کیا
یہ اگر فریب خیال ہے وہ فریب حسن خیال ہے

یہی داد قصۂ غم ملی کہ نظر اٹھی نہ زباں ملی
فقط اک تبسم شرمگیں مری بے کسی کا مآل ہے

وہ خوشی نہیں ہے وہ دل نہیں مگر ان کا سایہ سا ہم نشیں
فقط ایک غم زدہ یاد ہے فقط اک فسردہ خیال ہے

کہیں کس سے اخترؔ بے نوا ہمیں بزم دہر سے کیا ملا
وہی ایک ساغر زہر غم جو حریف نوش کمال ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse