مجھے اس جھمک سے آیا نظر اک نگار رعنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجھے اس جھمک سے آیا نظر اک نگار رعنا
by نظیر اکبر آبادی

مجھے اس جھمک سے آیا نظر اک نگار رعنا
کہ خور اس کے حسن رخ کو لگا تکنے ذرہ آسا

خد و خال خوبی آگیں لب لعل پاں سے رنگیں
نظر آفت دل و دیں مژہ صد مضرت افزا

پڑی رخ پہ زلف پر خم مسی رشک رنگ نیلم
غرض اس طرح کا عالم کہ پری کہے اہا ہا

کہا ہم نے اے سمن بر پری چہرہ مہر پیکر
جو چلی ہو یوں جھمک کر کہو عزم ہے کدھر کا

ہے یہ وقت سیر بستاں پھلیں ہم بھی ساتھ اے جاں
کہا سن کے یہ ارے میاں کوئی تم بھی ہو تماشا

ہے یہ آشنائی اگلی نہ شناخت اک دو دن کی
جو ہے دل دہی کی مرضی تو ہے لوچ پھر یہ کیسا

کہا جب نظیرؔ ہم نے "یہی دل ہیں ہم تو رکھتے"
تو کہا جو نیکی ہووے تو پھر اس کا پوچھنا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse