مجسم داغ حسرت ہوں سراپا نقش عبرت کا
مجسم داغ حسرت ہوں سراپا نقش عبرت کا
مجھے دیکھو کہ ہوتا ہے یہی انجام الفت کا
انہیں شوق دل آزاری ہمیں ذوق وفاداری
خدا حافظ ہے اب اپنے کشور کار الفت کا
وصال یار کی اے دل کوئی پر زور کوشش کر
ہوائے آہ سے پردہ اٹھا دے شام فرقت کا
دل پر شوق نے ڈالا ہے مجھ کو کس کشاکش میں
ادھر ہے حد کی بے صبری ادھر وعدہ قیامت کا
تم ایسے بے خبر بھی شاذ ہوں گے اس زمانے میں
کہ دل میں رہ کے اندازہ نہیں ہے دل کی حالت کا
جہاں میں چار دن رہ کر فقط بوئے وفا دینا
گلوں سے میں سبق لیتا ہوں آئین صحبت کا
لگا رکھتا ہے اس کی نذر کو چشم تمنا نے
وہ اک آنسو کہ مجموعہ ہے ساری دل کی طاقت کا
مری قدرت سے اب اخفائے راز عشق باہر ہے
کہ رنگ آنے لگا ہے آنسوؤں میں خون حسرت کا
اک آہ سرد بھر لیتا ہوں جب تم یاد آتے ہو
خلاصہ کس قدر میں نے کیا ہے رنج فرقت کا
وہ دل ہے بزم عالم میں نظرؔ اک ساز بشکستہ
نہ چھیڑے تار ہستی پر جو نغمہ اس کی قدرت کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |