مجسم داغ حسرت ہوں سراپا نقش عبرت کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجسم داغ حسرت ہوں سراپا نقش عبرت کا
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

مجسم داغ حسرت ہوں سراپا نقش عبرت کا
مجھے دیکھو کہ ہوتا ہے یہی انجام الفت کا

انہیں شوق دل آزاری ہمیں ذوق وفاداری
خدا حافظ ہے اب اپنے کشور کار الفت کا

وصال یار کی اے دل کوئی پر زور کوشش کر
ہوائے آہ سے پردہ اٹھا دے شام فرقت کا

دل پر شوق نے ڈالا ہے مجھ کو کس کشاکش میں
ادھر ہے حد کی بے صبری ادھر وعدہ قیامت کا

تم ایسے بے خبر بھی شاذ ہوں گے اس زمانے میں
کہ دل میں رہ کے اندازہ نہیں ہے دل کی حالت کا

جہاں میں چار دن رہ کر فقط بوئے وفا دینا
گلوں سے میں سبق لیتا ہوں آئین صحبت کا

لگا رکھتا ہے اس کی نذر کو چشم تمنا نے
وہ اک آنسو کہ مجموعہ ہے ساری دل کی طاقت کا

مری قدرت سے اب اخفائے راز عشق باہر ہے
کہ رنگ آنے لگا ہے آنسوؤں میں خون حسرت کا

اک آہ سرد بھر لیتا ہوں جب تم یاد آتے ہو
خلاصہ کس قدر میں نے کیا ہے رنج فرقت کا

وہ دل ہے بزم عالم میں نظرؔ اک ساز بشکستہ
نہ چھیڑے تار ہستی پر جو نغمہ اس کی قدرت کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse