مجرم کون

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجرم کون
by رشید جہاں

شام کا وقت ہے، انگلش کلب میں آج بہت رونق ہے۔ سٹرک پر دور دور تک موٹریں کھڑی ہیں۔ دیواروں پر ٹینس کے نیلے پردے کسے ہوئے ہیں جو اندر کی کارروائی گندی اور غلیظ ہندوستانی آنکھوں سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پھر بھی کسی نہ کسی صاحب یا میم صاحب یا کسی ہندوستانی افسر پر نظر پڑ ہی جاتی ہے۔ کلب کے سامنے ہاکی کھیلنے کا ایک بڑا میدان ہے جس پر اپنے کئی ہندوستانی بھائی جمع ہو گئے ہیں۔ کچھ چل پھر رہے ہیں لیکن منہ سب کے کلب کی طرف ہیں۔ نہ معلوم وہ کیوں جمع ہیں؟ غالباً پردوں اور موٹروں کی چہل پہل نے ان میں ایک خواہش ایک جستجو پیدا کر دی ہے اور وہ تماشا دیکھنے کے انتظار میں جمع ہیں۔

’’یار دیکھو وہ بجلی والے صاحب ہیں۔‘‘

’’اور میم کس کی بغل میں دبائے ہیں۔‘‘

قہقہہ پڑتا ہے۔

’’اجی یہ لوگ بھی خوب ہیں، چاہے کوئی میم ہو۔۔۔‘‘

’’تیرا دل بھی صاحب بہادر بننے کو چاہتا ہے۔ نکال نہ اپنی جورو کو، ہم بھی ذرا بھابی کے درشن کر لیں۔‘‘

’’تم نے سنا نہیں یار، وہ تو کانی بھی ہے اور نکٹی بھی۔‘‘

سب ہنسنے لگے۔

’’ارے یہ کون ہیں یہ تو کالے ہیں ان کا یہاں کیسے گذر ہو گیا؟‘‘

’’کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔‘‘

اس پر بہت زور کا قہقہہ پڑا۔

’’دیکھو، دیکھو! وہ پھانسی والا آگیا۔‘‘

’’اجی وہ دیکھو موٹر سے وہ جج صاحب اترے۔‘‘

’’ارے یار بڑا انصاف کرتے ہیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی۔ خدا قسم! ادھر جب میں فتو والی مارپیٹ میں پھنس گیا تھا تو جج صاحب نے چھوڑ دیا۔‘‘

’’ابے سالے چپ بھی رہ، نہیں تو کھینچ دوں گا ایک ہاتھ۔ فتو سے تو پوچھ دودھ کا دودھ پانی کا پانی۔‘‘

’’چلو یار چھوڑو اس مردود کو یہاں، وہ جنٹ صاحب کی لڑکی تو آتی نظر نہیں آتی۔‘‘

آج جج رابنسن صاحب کی الوداعی پارٹی ہے۔ وہ آٹھ مہینے کی چھٹی پر ولایت شادی کرنے جا رہے ہیں۔ اپنے زمانے کے صحیح جج ثابت ہوئے ہیں۔ کلب میں بہت ہر دلعزیز تھے۔ شہر کے انگریزوں کی تو گویا وہ جان تھے۔ ہندوستانی اعلیٰ افسروں کی پیٹھ بھی کافی تھپک دیتے تھے۔ کبھی کبھار ان کو کھانے یا چائے پر بھی بلا لیتے تھے۔ اس لئے وہ بھی ان کی بہت قدر کرتے تھے۔ باقی ’’نیٹیو‘‘ آبادی پر صاحب کا کافی رعب و داب تھا۔ بعض لوگ کلکٹر ججوں میں سے ہیں جو رشوت نہیں لیتے، تو لوگ عزت بھی کرتے تھے۔ قانون کو ایسا سمجھتے تھے کہ صوبہ میں کم جج ان کا مقابلہ کرتے تھے۔ بس یہ کہو کہ اس انگریزی قانون کی جو انہوں نے غلاموں کے لئے بنایا تھا ان سے اچھی ترجمانی کوئی نہ کر سکتا تھا۔ ان کو اپنی ایمانداری اور انصاف پر ناز تھا۔

کالے آدمیوں سے صاحب لوگ اپنی زندگی کے بارے میں ہزار چھپائیں لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ خبر باہر نکل ہی آتی ہے۔ تین سال ہوئے جج رابنس چھٹی کا کچھ حصہ شملے پر گزار رہے تھے کہ وہ اچانک ایک مسزبلیک سے ملے۔ مسز بلیک بیس اکیس سال کی خوبصورت لڑکی تھی چند مہینے پہلے کرنل بلیک سے شادی کر کے ہندوستان آئی تھی۔ کرنل صاحب فیروز پور میں تھے اور وہ جلدی جلدی شملے آتے جاتے رہتے تھے۔ لیکن جب رابنس صاحب وہاں پہنچے تو سلویا سے بھی ملے۔ دو تین دن ہی میں دونوں میں اتنی بے تکلفی ہو گئی کہ اچھے خاصے دوست ہو گئے اور بہت جلدی دوستی عشق کی حدتک پہنچ گئی۔ رابنس ان خوش قسمت انگریزوں میں تھا جس پر کئی عورتوں کی آنکھ تھی اور رابنس جہاں کہیں جاتا ان کی آنکھوں کا تارا بنا رہتا تھا۔ عشق ایک نہیں کئی ہوئے تھے۔ شادی شدہ غیر شادی شدہ ہر قسم کی عورتوں سے۔ لیکن یہ بھوت ہی کچھ اور تھا۔ مسز بلیک تو بس دنیا و مافیہا کو بھول چکی تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کا سوسائٹی میں خیال رکھا جاتا ہے کہ پردہ فاش نہ ہو۔ اس کو تو یہ کھیل جیسے آتا ہی نہ تھا۔ وہ ایک کھلی ہوئی کتاب تھی جس کا جی چاہے پڑھ لے۔ ہر طرف جارج رابنس لکھا ہوا تھا۔ رابنس نے اس کو سمجھایا بھی۔ اس کا جواب یہی ملا ’’مجھے تو کوئی ڈر نہیں۔ تمہیں ڈر ہو تو مجھ سے نہ ملو۔‘‘

آخر کو اور بھی عورتیں ہوٹل میں تھیں، جن میں سے اکثر رابنسن پر ریجھی ہوئی تھیں۔ کئی سلویا بلیک کے حسن سے خار کھائے بیٹھی تھیں۔ عشق برابر ہوٹل میں چلا ہی کرتے تھے۔ چھیڑ چھاڑ، ہنسی مذاق، چھپ کے ملنا، راتیں ساتھ گزارنا بھی کچھ برا نہ تھا۔ اس کے خاص سلیقے اور قاعدے بن جاتے ہیں۔ لیکن ایسا کھلم کھلا عشق وہ بھی ایک شادی شدہ عورت کا سوسائٹی کیسے برداشت کر لیتی۔ پہلے چہ میگوئیاں ہوئیں پھر باتیں ہوئیں آوازے کسے گئے کرنل صاحب بھی آئے۔ بیوی کا رنگ ہی اور دیکھا۔ بات کو پی گئے۔ لیکن آخر کہاں تک، ایک روز مسز بلیک شملہ سے غائب ہو گئیں۔ تین دن سہارن پور جا کر رہیں۔ پتہ لگانے والوں نے لگا ہی لیا۔ رابنس ہندوستان میں دس سال سے تھا۔ اونچ نیچ کو اچھی طرح سمجھتا تھا لیکن پھر کیا کرتا۔ مجبور تھا۔ محبت اختیار میں نہ تھی۔ معاملہ طشت از بام ہو گیا۔ کرنل دیوانہ ہو کر انتقام لینے پر آمادہ ہو گیا۔ اس کو بھی ضد پڑ گئی کہ وہ ضرور رابنس پر اپنی بیوی بھگا لے جانے کا دعویٰ کرے گا۔ بلکہ اس نے وکیلوں سے کوئی نہ کوئی مطلب کا قانون نکالنے کی باتیں بھی شروع کردیں۔ رابنس بہت چکرایا۔ لیکن کرتا تو کیا۔ معاملہ بہت بگڑ چکا تھا، خود کرنل سے ملا۔ دوستوں سے کہلوایا۔ لیکن بلیک اپنی ضد پر اڑا رہا۔ اس طرح دو انگریزوں میں کھلم کھلا مقدمہ بازی کرنا انگریزی رعب و داب میں فرق ڈالنا تھا۔ لہٰذا ادھر گورنر تک اور ادھر کمانڈر ان چیف کے کانوں تک خبر پہنچائی گئی۔ ایک زبردست دباؤ کے بعد کرنل صاحب راضی ہو ئے کہ وہ بجائے رابنس پر دفعہ 496 کا مقدمہ چلانے کے اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا اور مسز بلیک کو فوراً ولایت روانہ کیا گیا کہ جب تک طلاق کی کارروائی پوری نہ ہو وہ وہیں رہیں۔

اس عرصہ میں کہ طلاق کی کارروائی جاری تھی، رابنسن ولایت ایک مرتبہ ہوائی جہاز سے اپنی معشوقہ سے مل آئے تھے۔ اب وہ آٹھ ماہ کے لئے جا رہے تھے ایک ایک لمحہ ہندوستان میں کاٹنا مشکل تھا۔ چلنے سے پہلے سلویا کا ایک تار ملا تھا کہ ’’میں تم کو وینس میں مل جاؤں گی۔‘‘ اس تار نے رابنس کو بالکل ہلا دیا۔ وہ بہت دیر تک سر جھکائے سلویا کے بارے میں سوچتا رہا۔ کیا غضب کی عورت ہے۔ پہاڑوں کی چاندنی راتیں، ہوٹل میں چھپ چھپ کر ملنا، ہزاروں نگاہوں سے چھپ کر راتوں کو اس کے پاس آنا، بلیک کی نگہداشت کے باوجود بھی آنا۔ اور پھر اس کی گود میں سر رکھ کر آہستہ سے کہنا۔ ’’کیا کروں بہت کوشش کرتی ہوں لیکن جارج تم سے محبت نہیں جاتی۔‘‘ اس کا خیال ہی چکرا دیتا تھا اور پھر وہ ہاتھ وہ گردن وہ جسم! جب وہ پہلی دفعہ اس کے ساتھ آئی تھی تو کیا سین ہوٹل میں نہ ہوا تھا۔ لوگوں نے کیا کیا ناک بھوؤں نہ چڑھائے تھے۔ لیکن اس نے آ کر نہایت سادگی سے اتنا کہا ’’جارج میں آگئی۔‘‘ گورابنسن پارٹی میں گھوم رہا تھا، لوگوں سے باتیں کر رہا تھا، لیکن اس کا دل وہاں نہ تھا۔ اس کو تشویش تھی تو یہ کہ وہ سلویاسی لاجواب عورت کو خوش بھی رکھ سکے گا یا نہیں۔

’’بھولا! تمہارے کھلاف گجڑیا کو ڈوسری ڈفعہ بھگانے کا جرم لگایا ہے وہ ثابٹ ہے۔ ٹم کو تین سال کی سکٹ سزا کا حکم سنایا جاٹا ہے۔ مٹرو! تم کو عورٹ گجڑیا واپس دی جاتی ہے۔‘‘

یہ حکم سنا کر رابنسن صاحب کانسٹبل کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا۔ ’’لے جاؤ مولزم کو۔‘‘ ان کا یہ کہنا تھا کہ ایک گندمی رنگ درمیانہ قد کی سولہ سترہ سال کی لڑکی چند مردوں کو چیرتی ہوئی جا کر بھولا سے لپٹ گئی۔ اور زور زور سے رونے چیخنے لگی۔ کچہری میں عورتوں کی چیخ و پکار روز ہی سنی جاتی ہے لیکن اس کی تڑپن میں کچھ جادو تھا کہ راہ چلتوں کے پیر روک لیتا تھا۔ کچہری کا کمرہ بھر گیا۔

بھولا بیس سال کا ایک چھوٹے قد کا دبلا پتلا آدمی تھا۔ کالے چہرہ پر کالی آنکھیں ناگ کی طرح چمک رہی تھیں۔ وہ بالکل خاموش تھا۔ گجریا کے بین اور رونے کاایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس پر کوئی اثر نہ تھا۔ ’’اے بھولا میں تو کونہ جانے دوں گی۔ اے جج صاحب ایسا جُلم نہ کرو۔ موکو بھی سنگ ہی بھیج دو۔ اے سپیّا میں ہاہاکھاؤں موکو بھی لے چل، یا کے سنگ موکو بھی بند کر دیجیو!‘‘

’’ہٹ ہٹ، چھوڑتی نہیں سسری۔‘‘

’’مٹرو، پکڑو نہ اس۔۔۔ کو۔۔۔ نے گجب اٹھا رکھا ہے۔‘‘

ادھر اس کے بھائی نے اور تین سپاہیوں نے پکڑا، ادھر کانسٹبلوں نے بھولا کو دھکا دیا۔ ’’چل بے، کھڑا کیا دیکھتا ہے۔‘‘ اس کو گھسیٹ کر کمرے سے لے گئے۔

’’بھولا، اوبھولا، کہاں چھوڑ چلا۔‘‘ پیچھے بھاگنے کی کوشش کی لیکن وہ چار مردوں کی آہنی گرفت سے کہاں جا سکتی تھی، زمین پر مچل گئی۔ ایڑیاں رگڑنے لگی۔ ’’بھولا۔ اے بھولا، بھولا، بھولا۔‘‘

’’کورٹ صاحب اس عورت کو بار نکالو، شور نہیں مانگٹا۔‘‘

’’پیشکار! سرکار بنام بندو کو آواز لگاؤ۔‘‘

بھولا قوم کا گڈریہ تھا۔ کانسرو کے جنگل میں گائے بیل چرایا کرتا تھا۔ پتلا سامست آدمی تھا۔ اپنے بھائی بھاوج کے ساتھ ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں بھاندو والے میں رہتا تھا۔ بچپن سے اسی جنگل میں رہا، پلا بڑھا۔ جنگل میں اس کا من لگتا تھا۔ سونگ ندی میں گاؤں کے اور جوانوں کے ساتھ مل کر نہاتا اور پھر اس کی آواز بھی کیا غضب کی تھی۔ اس کا پتوں کے ڈھیر پر لیٹ کر اور لہک لہک کر گانا۔

’’نینوں سے نینا ملاؤ میری جان۔‘‘ گاؤں کی لڑکیوں کی آنکھوں میں چمک پیدا کر دیتا۔

کانسرو کا جنگل فروخت ہوا اور کئی بڑھئی درختوں کو کاٹنے اور گرانے لگے۔ ان میں سے ایک مٹرو بھی تھا۔ وہ مع اپنی جوان گجریا کے وہاں آیا۔ بڑھئی اپنی عورتوں کو جنگل میں کام پر نہیں لے جاتے ہیں۔ لیکن مٹرو کا چچا پھاندو والے میں رہتا تھا۔ لہٰذا وہ گجریا کو بھی ساتھ ہی لے آیا۔ گجریا سولہ سترہ سال کی گندمی رنگ کی بھرے بھرے جسم کی ایک گرم گرم لڑکی تھی، گاؤں کی اور عورتوں کے ساتھ ندی پر پانی بھرنے جاتی تھی۔ راستے بھر ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ چہلیں کرتی بھاگ دوڑ مچاتی ہوئی جاتی تھی۔ راستہ ادھر سے نکلتا تھا جہاں گاؤں کا ایک آدھ گڈریہ گایوں اور بیلوں کے واسطے پڑا رہتا تھا۔ اکثر ان مردوں اور عورتوں میں چھیڑ چھاڑ، ہنسی مذاق ہوتا تھا۔ کوئی لڑکی کہتی۔ ’’اے بھولا جرا وہ ہولی تو سنا دے۔‘‘

’’کیا دے گی؟‘‘ بھولا آنکھ مار کر پوچھتا۔

لڑکی اٹھا کر پتھر مارتی۔ ’’دیکھو بھابی یہ بھولا گاری دیتا ہے۔‘‘

’’تو بڑا جلمی ہے رے بھولا۔‘‘ اس کی بھاوج جو بھولا کے مذاقوں کو پسند کرتی تھی بن کر جواب دیتی۔

گجریا کے آنے سے بھولا کی زندگی میں بہت تبدیلیاں ہونے لگیں۔ اب پہلے سے بھی زیادہ گانے لگا۔ اس کے مذاق بھی زیادہ تیکھے ہو گئے۔ وہ گجریا کے انتظار میں بیٹھا رہتا۔ ایک آدھ دفعہ گاؤں کی گلی میں گجریا اس کو اکیلی بھی ملی لیکن گجریا کو دیکھ کر اس کے پیر بندھ جاتے تھے اور منہ تو جیسے کسی نے کیل دیا ہو۔ جب گجریا سامنے نہ ہوتی تو بڑی بڑی باتیں سوچتا لیکن دیکھ کر سب بھول جاتا۔ ایک دن جب وہ جنگل میں گا رہا تھا، گجری اور عورتوں کے ساتھ ادھر سے گزری۔ اس کو دیکھ کر بہت عورتیں رکیں۔ وہ اسی طرح لیٹا گاتا رہا۔ پھر گجریا کی طرف دیکھا۔ اس نے نیچی نگاہ کر کے مسکرا دیا۔ بھولا گانا وانا سب بھول گیا۔ گجریا اور دوسری عورتیں چلی گئیں۔ لیکن اس دن سے گجریا اور وہ آنکھوں اور مسکراہٹ میں باتیں کرنے لگے۔

ایک دوپہر کو گجریا کا پانی جلدی سے ختم ہو گیا اور اس کو اکیلے جنگل پانی لینے جانا ہوا۔ راستہ میں بھولا مل گیا۔ ہمت کر کے بھولا۔ ’’گوری آج اکیلی اکیلی کہاں؟‘‘ گجریا بگڑ گئی۔ یہ ڈر گیا لیکن ہمت کر کے چھیڑتا ہی گیا۔ گجری بھی ہنس دی۔ بھولا نے اٹھ کر اس کی کولی بھر لی۔ وہ گھبرا کر کھڑی وہ گئی۔ لیکن وقت اور جگہ مقرر ہو گئی۔

بھولا کی بے چینی کا عجیب حال تھا۔ تین رات سے اسی جگہ گجریا کا انتظار کر رہا تھا۔ لیکن وہ آئی نہ تھی۔ آخرکو چوڑیاں بچھوے اتار کر دبے پاؤں گاؤں کے باہر لکڑیوں کے ڈھیر کے پیچھے آ کر کھڑی ہوئی اور چپکے سے بھولا کو بتایا کہ اس کامیاں مٹرو پورے وقت اس کے ساتھ ہی سوتا رہا۔ وہ کوئی بہانہ نہ لگا سکی۔ اب پیٹ میں دردد اور جنگل کا بہانہ کر کے آئی ہے اور بہت جلدی جانا ہے۔ اب یہی قصہ چلنے لگا کہ بھولا رات رات بھر گجریا کے انتظار میں جاگا کرتا اور وہ اگر موقع لگ جاتا تو آجاتی۔

بھولا اپنی اور سب آشنا عورتوں کو بھول گیا۔ جہاں سگائی ہوئی اس کی بھی سدھ بدھ نہ رہی تھی۔ بھائی کے بہت بگڑنے پر کہہ دیتا۔ ’’ابھی میں نا کرتا۔‘‘ پریم کی پینگیں بڑھتی گئیں۔ دونوں انجام سے بے خبر جب ہی تک زندہ رہتے جب تک ایک دوسرے کی آغوش میں ہوتے۔

گاؤں کے آس پاس لکڑی کے ڈھیر لگے تھے۔ ایک رات کچھ لوگ بیٹھے حقہ پی رہے تھے کہ گجریا نکلی اور جنگل کی طرف چلی۔

’’کون گئی؟‘‘ ایک نے شک کے لہجے میں آہستہ سے پوچھا۔

دوسرے نے کہا۔ ’’مٹرو کی معلوم پڑتی ہے۔‘‘

’’یاوکھت وہاں اس کا کیا کام ہے؟‘‘

اتنے میں آہستہ آہستہ بھولا بھی اسی راستے سے جاتا دکھائی دیا۔

’’ہوں! تو یہ بات ہے!‘‘

’’لو، کو اور بھی کوئی نہ ملا۔ یہ گڈریا کاہی رہ گیا تھا؟‘‘

گاؤں میں ایسی بات آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ دوسرے روز آہستہ آہستہ ہر طرف اس کا چرچا تھا لیکن مٹرو کے منہ پر کون کہے۔ آخر کو کاشی بڑھئی نے حقہ پیتے پیتے مٹرو کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’مٹرو تیری عورت ہے تو بڑی سندری۔‘‘

مٹرو نے غضب ناک آنکھیں نکال کر کاشی کی طرف دیکھا

’’تجھ سے کا؟‘‘

’’نابھیا میں تو کہتا تھا کسی سندری کا قابو میں رکھنا بڑا مشکل کام ہے کیوں ٹھیک بات ہے نابلدیوا۔‘‘

بلدیوا نے بھی سر ہلا دیا۔

مٹرو نے بگڑ کر پوچھا۔ ’’کون کا بات ہے؟‘‘

’’کچھ نابھیا۔ کل رات تیری عورت ادھر ندی کے جنگل میں جارہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بھولا بھی ادھر ہی گیا۔‘‘

’’کون بھولا؟‘‘

’’وہی گڈریا کا!‘‘

’’ہوں‘‘

’’نابھیا کچھ دیکھا ویکھا نا نہیں، بس جو بات تھی کہہ دی۔‘‘

مٹرو کے دل میں تو جیسے چھری بھونک دی ہو، گھر میں آکر گجریا کو خوب پیٹا تو دل کچھ ٹھنڈا ہوا۔ لیکن اب ہر وقت وہ گجریا کو آنکھوں میں رکھنے لگا اور ادھر اپنی چاچی سے بھی کہہ دیا۔ ’’چاچی اس کا دھیان رکھنا، ادھر ادھر اکیلی نہ ڈولے۔‘‘

گجریا پر اب بہت سختی ہونے لگی۔ مٹرو بات بے بات مارنے لگا۔ لیکن اس نے بھولا سے ملنا نہ چھوڑا۔ دو ہی منٹ کو مل لیتی گلے ہی لگ آتی۔ ہاتھ ہی چھو لیتی۔ رفتہ رفتہ چاچی بھی بات کو بھولنے لگی اور مٹرو بھی ذرا غافل ہو گیا۔

ایک رات مٹرو کی آنکھ کھلی گجریا غائب تھی۔ چپکے چپکے جھونپڑے میں ڈھونڈھا۔ باہر نکل کر ڈھونڈا کہیں نہ ملی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا کہ گجریا دبے پاؤں گھر کی طرف جارہی ہے اور کچھ فاصلے پر بھولا بھی ہے۔

بات صاف تھی۔ گجریا کے پیچھے پیچھے گھر چلا اور اس سے پہلے کہ وہ گھر میں گھسے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ گجریا کا دم ہی تو نکل گیا۔ لیکن آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی رہی۔ چھ مہینے کی متواتر محبت نے اس کو تھوڑا سا نڈر بھی کر دیا تھا۔

’’کہاں گئی تھی؟‘‘

’’جنگل‘‘

’’ساتھ کون تھا؟‘‘

گجریا چپ تھی۔

’’بولتی کیوں نہیں؟‘‘ ایک طمانچہ زور کا منہ پر پڑا۔ پھر گھونسہ لات اور گھونسہ لات اور گھونسہ لات! ویسے جب گجریا پٹتی تھی تو گاؤں کی اور عورتوں کی طرح وہ بھی واویلا مچاتی تھی۔ لیکن آج رات وہ مار کھاتی رہی اور چپ رہی۔ گھونسوں کی آواز سن کر چچی نکل آئی۔ مٹرو کو اندر لے گئی۔ گھر والوں میں صلاح ہوئی کہ اپنی عزت کی بات ہے۔ بات دبا دینی چاہئے اور اس کو اس کے باپ کے گھر پہنچا دینا چاہئے۔

دوسرے روز سوجی سجائی گجریا وہاں سے آٹھ میل پر برکوٹ پہنچا دی گئی اور ساتھ ہی مٹرو اس کی ساری بات بھی کھولتا آیا۔ وہاں پر باپ و سوتیلی ماں، بھائی اور بھاوج نے ہر وقت کی چوکیداری شروع کر دی۔ لیکن ایک گڈریہ کے لئے آٹھ میل کیا ہوتے ہیں تھوڑے ہی دنوں پیچھے پھر دونوں آٹھویں اور دسویں چھپ کر ملنے لگے۔ ایک روز بھتیجے نے دیکھ لیا۔ آکر گجریا کے بھائی سے کہا۔ بھائی نے مٹرو سے بھی زیادہ بہن کی مرمت کی اور اب گھر والے رات کو اسے کوٹھری میں بند کر دیتے تھے۔ جون کا مہینہ، چھوٹی سی کوٹھری، گجریا تھی کہ وہاں سے ادھ مری ہو کر نکلتی تھی۔

ایک شام کو وہ گھر سے غائب تھی۔ سارا گاؤں، جنگل ڈھونڈھ ڈالا، پتہ نہ لگا۔ مٹرو کے پاس آدمی راتوں رات گیا۔ معلوم ہوا کہ دو دن سے بھولا بھی غائب ہے۔ دوسرے دن پولیس میں اطلاع ہوئی۔ وارنٹ کٹوایا کہ بھولا نابالغ لڑکی کو لے کر بھاگ گیا ہے۔ آٹھ روز بعد دونوں پکڑے ہوئے لائے گئے۔ عدالت میں گجریا نے گواہی دی۔ اپنی محبت اور خود اپنی مرضی سے بھولا کے ساتھ جانے کا اقبال کیا۔

بھولا نے بہت کہا کہ مجھ کو اس کی عمر کی کیا خبر تھی کیا اس کے ماتھے پر لکھی ہوئی تھی، مجھ کو اس سے محبت ہے۔ یہ خود میرے ساتھ چلی آئی لیکن قانون تو قانون ہی ہے اس میں چوں کی کیا مجال۔

اور پھر جب رابنسن جیسا قابل جج قانون کی ترجمانی کرے تو بھولا کو تین سال کی سزا سے کم کیا مل سکتی تھی؟

کلب میں آج شام ہر طرف چہل پہل تھی۔ چالیس کے قریب انگریز مرد اور عورت تھے اور تین چار ہندوستانی معہ اپنی بیویوں کے رونق افروز تھے۔ آج رابنسن کی بہت قدر تھی ہر طرف ان کی پوچھ تھی۔ ہر انگریز ان کے ’’ہوم‘‘ جانے پر افسوس کر رہا تھا۔ انگریز یہاں خواہ کتنے ہی آرام و آسائش میں رہیں لیکن ’’ہوم‘‘ چھٹی پر جانا ایسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسے کوئی چڑیا پنجرے سے چھٹ کر خوش ہوتی ہے۔ ہندوستان کی قدر تو وہ اکٹھا ہی کرتے ہیں، یعنی جب پنشن پا کر عمر بھر کے لئے ’’ہوم‘‘ جا کر ہوم بساتے ہیں۔ آج تو رابنسن اور بھی غیر معمولی طور پر خوش تھا کہ وہ اب شادی کرنے جا رہا تھا۔ ایک میز پر وہ، ٹم راجرس، ایک اور انگریز اور مس فوکس بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔

’’ہاں یہ بات ٹھیک ہے۔ یہ لوگ ہوتے تو ’’ایموشنل‘‘ ہیں بالکل جانوروں کی طرح۔‘‘

’’اب دیکھو چھ آنے پر لڑکر کیپٹن مارٹن کے بیرانے چوکیدار کے چھرا بھونک دیا۔‘‘ مس فوکس نے تائید کرتے ہوئے کہا۔

’’روگ Pogueکا مجھ کو وہ آدمی بالکل پسند نہیں تھا۔ نہ معلوم مارٹن نے اس کو کیوں رکھا ہوا تھا۔‘‘

’’مجھے تو بہت خوشی ہے کہ میں جا رہا ہوں ورنہ اس کو پھانسی کی سزا بھی مجھی کو دینی پڑتی۔‘‘ رابنسن نے کہا۔

’’پھانسی کی سزا مجھ کو بالکل پسند نہیں۔‘‘ ٹم راجرس نے کہ جو ابھی تین مہینے پہلے ہندوستان آیا تھا۔ یہاں کی ہر چیز اس کو ایک عجوبہ معلوم ہوتی تھی۔

’’پھانسی کی سزا پسند نہیں۔‘‘ مس فوکس زور سے چیخیں۔‘‘ اگر پھانسی کا ڈر نہ ہو تو یہاں کے وحشی ’’نیٹیو‘‘ ہم میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑیں۔‘‘

’’ارے چلئے بھی مس فوکس آپ کتنی عجیب باتیں کرتی ہیں۔‘‘ ٹم راجرس نے جس پر ابھی تک کیمبرج کارنگ چڑھا ہوا تھا۔ ہنس کر مس فوکس کو چھیڑا۔

’’لیکن مارٹن کے بیرا کو تو ضرور پھانسی ملنی چاہئے۔ رات بھر اس کی چوکیداری کی عورت اتنے زور زور سے روتی رہی ہے کہ مارٹن کے کمپاؤنڈ اور ہمارے کمپاؤنڈ میں کسی کو سونے ہی نہ دیا۔‘‘

’’تو بیرا کے پھانسی لگنے سے کیا چوکیدار کی بیوی کا رونا رک جائے گا۔‘‘

ٹم نے پھر پوچھا۔

’’سنو راجرس تم ابھی ابھی ہندوستان آئے ہو تم جوش میں بہت سی باتیں بھولتے ہو لیکن مس فوکس نے جو کچھ کہا ہے سچ ہے۔ اگر پھانسی کا ڈر نہ ہو تو اس وحشی ملک میں ہر وقت قتل و خون ہوا کرے۔ ہمارے قانون کی برکت سے اتنا ہوا ہے کہ امن و امان قائم ہے۔‘‘ جج نے کہا۔

’’ہاں چلتے چلو۔‘‘ ٹم راجرس نے کہا۔

’’یہ ہمارا ہی بنایا ہوا قانون ہے جس کے سامنے ہر چھوٹا بڑا بغیر کسی قوم و ملت کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ اور جبھی ہر ہندوستانی کہتا ہے کہ اس انگریزی راج میں شیر اور بکری ایک جگہ پانی پی سکتے ہیں۔‘‘

’’سچ مچ تو کیا یہاں کا قانون اپنے ’موم‘ کے قانون سے مختلف ہے؟‘‘

ٹم راجرس نے مسکرا کر سوا ل کیا۔

اس پر تینوں انگریز جو کئی سالوں سے ہندوستان میں تھے ہنس پڑے۔

ٹم بالکل سرخ ہو گیا۔

مس فوکس نے کہا۔ ’’ٹم تمہارا مطلب کیا ہے، تمہارے خیال میں ہم میں اور ’نیٹیو‘ میں کچھ فرق ہے؟‘‘

’’میرا مطلب یہی ہے کہ قانون ہندوستان میں چھوٹا بڑا یا اونچا نیچا نہیں دیکھتا۔ میں اپنی طرف سے بلکہ سب انگریزوں کی طرف سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے دل میں کبھی ایسے خیالات نہیں آئے۔ ہم تو قانون سب کے لئے برابر سمجھتے ہیں۔‘‘ رابنسن نے کہا۔

اتنے میں سوشیل کمار گپتا ایک ہندوستانی آئی۔ سی۔ ایس۔ بھی اس گروپ کے قریب آ نکلے اور ہیلو رابنسن کہہ کر میز کی طرف بڑھے۔

’’دیکھوگپتا، آپ نے مجھے ساتھ لے جانے کا وعدہ کیا تھا اور خود جلدی چلے گئے۔‘‘ راجرس نے شکایت کی۔

’’میں بہت سویرے گیا تھا اور پھر میری فیملی بھی ساتھ تھی۔ افسوس کہ آپ کو ساتھ نہ لے جا سکا۔ لیکن مجھ کو دو تین روز بعد پھر جانا ہے۔‘‘

’’آپ کہاں گئے تھے؟‘‘ رابنسن نے پوچھا۔

’’کانسراؤ کی طرف، ہاں وہاں ایک گاؤں ہے پھاندو والا۔ وہاں پر کل ایک عجیب واقعہ ہوا۔ (ہنس کر) اس کے ذمہ دار رابنسن تم بھی ہو۔‘‘

’’میں!‘‘ ربنسن نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’کیا ہوا؟‘‘ مس فوکس نے سوال کیا۔

’’ایک جوان لڑکی نے اپنے شوہر کے گھر کو آگ لگا دی اور پھر اپنے کپڑوں پر تیل چھڑک کر آگ میں گھس گئی۔‘‘

’’تو میں کس طرح ذمہ دار ہوا؟‘‘ رابنسن نے مسکرا کر پوچھا۔

’’ تم نے دو عاشق و معشوق کو جدا کر دیا۔ آدمی کو جیل بھجوا دیا۔ لڑکی خود جل مری گھر بھی ساتھ پھونک گئی۔‘‘

’’کون سا کیس؟‘‘ رابنسن نے دماغ پر زور ڈالتے ہوئے کہا۔

’’کہانی مجھ کو معلوم ہے، کیس کی مجھ کو خبر نہیں۔‘‘ گپتا نے کہا۔

’’مسٹر گپتا ضرور ساری بات سنایئے۔‘‘ مس فوکس نے اشتیاق سے پوچھا۔ گپتا نے کہا کہ۔

’’مس فوکس کہانی دلچسپ ہے۔ ایک بڑھئی کی عورت کا ایک گڈریے سے عشق تھا۔ جب بڑھئی کو خبر لگی تو اس نے مارا پیٹا، کچھ نہ ہوا۔ دونوں ملتے رہے۔ لوگ توکہہ رہے تھے کہ وہ دونوں نہ چیتے سے ڈرتے تھے نہ شیر سے اور چھپ چھپ کر راتوں کو جنگلوں میں ملتے تھے۔ پھر بڑھئی نے اس کو اس کے باپ کے یہاں بھیج دیا۔ وہاں اس کے رشتہ داروں نے مارا پیٹا، بند کیا۔ لیکن پھر بھی کوئی اثر نہ ہوا، اور وہ برابر چھپ چھپ کر راتوں کو جنگل میں ملتے رہے۔

آخر وہ ایک دن اس لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی۔ ہر دوار سے دونوں پکڑے آئے۔ نمبر ایک مقدمہ قائم ہوا۔ رابنسن صاحب کے ہاں لڑکا ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔ ان دونوں نے پھر چھپ کر ملنا شروع کیا اور پھر بھاگ گئے۔ اب کے بمبئی جارہے تھے کہ دہلی پکڑے گئے۔ اب دو مقدمے قائم ہو گئے۔ ہمارے رابنسن نے لڑکے کو تین سال کی قید کر دی۔‘‘

’’اچھا ہندوستان میں بھی لوگ محبت کرتے ہیں؟‘‘ مس فوکس نے نہایت تعجب سے پوچھا۔

گپتا اور ٹم قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔

’’قانون ہے جناب میں کیاکروں۔‘‘ رابنسن نے تھوڑی دیر بعد جواب دیا۔

’’اوہ جارج!‘‘ مس فوکس نے تین سال کی ناامیدی کا بدلہ اپنی آواز میں بھر دیا۔ رابنسن مطلب سمجھ کر سرخ ہو گیا۔

’’میری بات ٹھیک ہے نا، رابنسن اگر گپتا کی عورت کو لے کر بھاگ جائے تو تم یہی سزا دیتے؟‘‘

’’میرا نام کیوں لیتے ہو میری بیوی تو قریب ہی بیٹھی ہے۔ اپنا ذکر کرو۔‘‘

’’اچھا میرا ہی سہی، اچھا سچ بتاؤ رابنسن اگر میں اس مرد کی جگہ ہوتا تو تم یہی سزا دیتے۔ (ٹھہر کر) اور جو فرض کرو تم اس کی جگہ ہوتے تو تم کیا میرے سے یہ امید کرتے کہ میں تم کو یہی سزا دوں؟‘‘

ٹم راجرس نے جو رابنسن کی عشقیہ ہسٹری سے بالکل ناواقف تھا، یہ سوال کیا۔

’’تمہارے سوال کا جواب۔۔۔‘‘

مس فوکس نے بات کاٹ کر اس کو ایک ’’نیٹیو‘‘ کے سامنے بڑھنے نہ دیا۔ اور اٹھ کھڑی ہوئیں۔

1941

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse