مجرم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجرم
by شکیب جلالی

یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے
جس کے فٹ پاتھ فقیروں سے اٹے رہتے ہیں
خستہ کپڑوں میں یہ لپٹے ہوئے مریل ڈھانچے
یہ بھکاری کہ جنہیں دیکھ کے گھن آتی ہے

ہڈیاں جسم کی نکلی ہوئی پچکے ہوئے گال
میلے سر میں جوئیں، اعضا سے ٹپکتا ہوا کوڑھ
روح بیمار، بدن سست، نگاہیں پامال
ہاتھ پھیلائے پڑے رہتے ہیں روگی انسان

چند بیواؤں کے مدقوق سے پیلے چہرے
کچھ ہوس کار نگاہوں میں اتر جاتے ہیں
جن کے افلاس زدہ جسم، ڈھلکتے سینے
چند سکوں کے عوض شب کو بکا کرتے ہیں

شدت فاقہ سے روتے ہوئے ننھے بچے
ایک روٹی کے نوالے سے بہل جاتے ہیں
یا سر شام ہی سو جاتے ہیں بھوکے پیاسے
ماں کی سوکھی ہوئی چھاتی کو دبا کر منہ میں

چند بد زیب سے شہرت زدہ انساں اکثر
اپنی دولت و سخاوت کی نمائش کے لیے
یا کبھی رحم کے جذبے سے حرارت پا کر
چار چھ پیسے انہیں بخش دیا کرتے ہیں

کیا فقط رحم کی حق دار ہیں ننگی روحیں؟
کیوں یہ انسانوں پہ انسان ترس کھاتے ہیں؟
کیوں انہیں دیکھ کے احساس تہی دستی ہے
اکثر اوقات میں کترا کے نکل جاتا ہوں؟
یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse