مجبوریاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجبوریاں
by مجاز لکھنوی

میں آہیں بھر نہیں سکتا کہ نغمے گا نہیں سکتا
سکوں لیکن مرے دل کو میسر آ نہیں سکتا

کوئی نغمے تو کیا اب مجھ سے میرا ساز بھی لے لے
جو گانا چاہتا ہوں آہ وہ میں گا نہیں سکتا

متاع سوز و ساز زندگی پیمانہ و بربط
میں خود کو ان کھلونوں سے بھی اب بہلا نہیں سکتا

وہ بادل سر پہ چھائے ہیں کہ سر سے ہٹ نہیں سکتے
ملا ہے درد وہ دل کو کہ دل سے جا نہیں سکتا

ہوس کاری ہے جرم خودکشی میری شریعت میں
یہ حد آخری ہے میں یہاں تک جا نہیں سکتا

نہ طوفاں روک سکتے ہیں نہ آندھی روک سکتی ہے
مگر پھر بھی میں اس قصر حسیں تک جا نہیں سکتا

وہ مجھ کو چاہتی ہے اور مجھ تک آ نہیں سکتی
میں اس کو پوجتا ہوں اور اس کو پا نہیں سکتا

یہ مجبوری سی مجبوری یہ لاچاری سی لاچاری
کہ اس کے گیت بھی دل کھول کر میں گا نہیں سکتا

زباں پر بے خودی میں نام اس کا آ ہی جاتا ہے
اگر پوچھے کوئی یہ کون ہے بتلا نہیں سکتا

کہاں تک قصۂ آلام فرقت مختصر یہ ہے
یہاں وہ آ نہیں سکتی وہاں میں جا نہیں سکتا

حدیں وہ کھینچ رکھی ہیں حرم کے پاسبانوں نے
کہ بن مجرم بنے پیغام بھی پہنچا نہیں سکتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse