مجبوری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجبوری
by امین حزیں سیالکوٹی

بچوں کا سال امی کہئے منائیں کیسے
ہوتے نہیں ہیں کافی دیتی ہو تم جو پیسے
دس پیسے کا غبارہ اب ہو گیا ہے پندرہ
مہنگا ہوا ہے امی لو چاکلیٹ پیارا
منی بھی رو رہی ہے کہتی ہے دو ملائی
کلفی بھی مہنگی مہنگی مہنگی ہوئی مٹھائی
تم نے ہی تو کہا تھا لے کر مری بلائیں
بچوں کا سال امی کہئے منائیں کیسے
آخر یہ کیا سبب ہے کہ سال کے شروع سے
تم دے رہی ہو پیسے کیوں ہاتھ روکے روکے
آنکھوں میں آنسو لا کر کہنے لگیں یہ امی
مجبور ہو گئی ہوں اے میرے ننھے منے
سرکار ہی نے اس کا اعلان کر دیا تھا
انیس سو اناسی بچوں کا سال ہوگا
لیکن بھلا ہو بچوں اس سال کے بجٹ کا
جس نے ہمارے اوپر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا
دل میں تو ہیں امنگیں لا دوں تمہیں کھلونے
مجبور کر دیا ہے پر ملک کے بجٹ نے
سوچا نہیں ہے شاید نیتاؤں نے ہمارے
خوشیاں منائیں کیسے بچے یہ پیارے پیارے پیارے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse