مجال کس کی ہے اے ستم گر سنائے تجھ کو جو چار باتیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجال کس کی ہے اے ستم گر سنائے تجھ کو جو چار باتیں
by داغ دہلوی

مجال کس کی ہے اے ستم گر سنائے تجھ کو جو چار باتیں
بھلا کیا اعتبار تو نے ہزار منہ ہیں ہزار باتیں

جو کیفیت دیکھنی ہے زاہد تو چل کے تو دیکھ میکدے میں
بہک بہک کر مزے مزے کی سنائیں گے بادہ خوار باتیں

فسانۂ درد و غم سنایا تو بولے وہ جھوٹ بولتا ہے
سنی ہوئی ہے بہت کہانی نہ ہم سے ایسی بگھار باتیں

ابھی سے ہے کچھ اداس قاصد ابھی سے ہے بد حواس قاصد
سنبھل سنبھل کر سمجھ سمجھ کر کرے گا کیا بے قرار باتیں

تمہاری تحریر میں ہے پہلو تمہاری تقریر میں ہے جادو
پھنسے نہ کس طرح دل ہمارا جہاں ہوں یہ پیچ دار باتیں

بری بلا ہے یہ داغؔ پر فن تم اس کو ہرگز نہ منہ لگانا
وگرنہ ڈھب پر لگا ہی لے گا سنیں اگر اس کی چار باتیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse