مجاز کیسا کہاں حقیقت ابھی تجھے کچھ خبر نہیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مجاز کیسا کہاں حقیقت ابھی تجھے کچھ خبر نہیں ہے
by اصغر گونڈوی

مجاز کیسا کہاں حقیقت ابھی تجھے کچھ خبر نہیں ہے
یہ سب ہے اک خواب کی سی حالت، جو دیکھتا ہے سحر نہیں ہے

شمیم گلشن نسیم صحرا شعاع خورشید موج دریا
ہر ایک گرم سفر ہے ان میں میرا کوئی ہم سفر نہیں ہے

نظر میں وہ گل سما گیا ہے، تمام ہستی پہ چھا گیا ہے
چمن میں ہوں یا قفس میں ہوں میں، مجھے اب اس کی خبر نہیں ہے

چمک دمک پر مٹا ہوا ہے، یہ باغباں تجھ کو کیا ہوا ہے
فریب شبنم میں مبتلا ہے چمن کی اب تک خبر نہیں ہے

یہ مجھ سے سن لے تو راز پنہاں سلامتی خود ہے دشمن جاں
کہاں سے راہ رو میں زندگی ہو کہ راہ جب پر خطر نہیں ہے

میں سر سے پا تک ہوں مے پرستی تمام شورش تمام مستی
کھلا ہے مجھ پر یہ راز ہستی کہ مجھ کو کچھ بھی خبر نہیں ہے

ہوا کو موج شراب کر دے فضا کو مست و خراب کر دے
یہ زندگی کو شباب کر دے نظر تمہاری نظر نہیں ہے

پڑا ہے کیا اس کے در پہ اصغرؔ وہ شوخ مائل ہے امتحاں پر
ثبوت دے زندگی کا مر کر نیاز اب کارگر نہیں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse