مثل سرمد طالب حق بیں اگر سرداد داد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مثل سرمد طالب حق بیں اگر سرداد داد
by قاسم علی خان آفریدی

مثل سرمد طالب حق بیں اگر سرداد داد
دیکھ لے منصور نے جی دار پر استاد داد

عشق ہے اے دل کٹھن کچھ خانۂ خالہ نہیں
رکھ دلیرانہ قدم تا تجھ کو ہو امداد داد

ہو نہیں سکتی ہے جس کی گوش زد فریاد داد
جس نے آباداں میرے دل کا نگر برباد داد

رشک دنیا ہے کسی نے کیوں برائے چند روز
زندگی اپنے تئیں افسوس یا میعاد داد

کس سے ہو سکتا ہے جو اس نے کیا عالم کے ساتھ
صورت خاکی میں کیسا کچھ دم ایجاد داد

خرم و خورسند اک عالم ہے پر حیراں ہوں میں
کیوں مجھے خاطر حزیں ہوئے دل ناشاد داد

آفریدیؔ اس شکار انداز سے کیونکر بجے
دام میں جس کے ہے سب خلقت ازاں صیاد داد

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse