مت ہو مغرور اے کہ تجھ میں زور ہے
Appearance
مت ہو مغرور اے کہ تجھ میں زور ہے
یاں سلیماں کے مقابل مور ہے
مر گئے پر بھی ہے صولت فقر کی
چشم شیر اپنا چراغ گور ہے
جب سے کاغذ باد کا ہے شوق اسے
ایک عالم اس کے اوپر ڈور ہے
رہنمائی شیخ سے مت چشم رکھ
وائے وہ جس کا عصا کش کور ہے
لے ہی جاتی ہے زر گل کو اڑا
صبح کی بھی باؤ بادی چور ہے
دل کھنچے جاتے ہیں سارے اس طرف
کیونکے کہیے حق ہماری اور ہے
تھا بلا ہنگامہ آرا میرؔ بھی
اب تلک گلیوں میں اس کا شور ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |