مت پوچھ تو جانے دے احوال کو فرقت کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مت پوچھ تو جانے دے احوال کو فرقت کے
by میر محمدی بیدار

مت پوچھ تو جانے دے احوال کو فرقت کے
جس طور کٹے کاٹے ایام مصیبت کے

جی میں ہے دکھا دیجے یک روز ترے قد کو
جو شخص کہ منکر ہیں اے یار قیامت کے

کہتا ہوں غلط تجھ سے میں دل کو چھڑاؤں گا
چھٹتے ہیں کہیں پیارے باندھے ہوئے الفت کے

قصر و محل منعم تجھ کو ہی مبارک ہوں
بیٹھے ہیں ہم آسودہ گوشہ میں قناعت کے

بے دار چھپائے سے چھپتے ہیں کوئی تیرے
چہرہ سے نمایاں ہیں آثار محبت کے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.