مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
Jump to navigation
Jump to search
مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
ہیں جمع سویداۓ دل چشم میں آہیں
کس دل پہ ہے عزم صف مژگان خود آرا
آئینے کے پایاب سے اتری ہیں سپاہیں
دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں
جوں مردمک چشم سے ہوں جمع نگاہیں
خوابیدہ بہ حیرت کدۂ داغ ہیں آہیں
پھر حلقۂ کاکل میں پڑیں دید کی راہیں
جوں دود فراہم ہوئیں روزن میں نگاہیں
پایا سر ہر ذرہ جگر گوشۂ وحشت
ہیں داغ سے معمور شقائق کی کلاہیں
یہ مطلع اسدؔ جوہر افسون سخن ہو
گر عرض تپاک جگر سوختہ چاہیں
حیرت کش یک جلوۂ معنی ہیں نگاہیں
کھینچوں ہوں سویداۓ دل چشم سے آہیں
![]() |
This work was published before January 1, 1928, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |