مایوس ازل ہوں یہ مانا ناکام تمنا رہنا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مایوس ازل ہوں یہ مانا ناکام تمنا رہنا ہے
by دل شاہ جہانپوری

مایوس ازل ہوں یہ مانا ناکام تمنا رہنا ہے
جاتے ہو کہاں رخ پھیر کے تم مجھ کو تو ابھی کچھ کہنا ہے

کھینچیں گے وہاں پھر سرد آہیں آنکھوں سے لہو پھر بہنا ہے
افسانہ کہا تھا جو ہم نے دہرا کے وہیں تک کہنا ہے

دشوار بہت یہ منزل تھی مر مٹ کے تہہ تربت پہنچے
ہر قید سے ہم آزاد ہوئے دنیا سے الگ اب رہنا ہے

رکھتا ہے قدم اس کوچہ میں ذرے ہیں قیامت زا جس کے
انجام وفا ہے نظروں میں آغاز ہی سے دکھ سہنا ہے

اے پیک اجل تیرے ہاتھوں آزاد تعلق روح ہوئی
تا حشر بدل سکتا ہی نہیں ہم نے وہ لباس اب پہنا ہے

اے گریۂ خوں تاثیر دکھا اے جوش فغاں کچھ ہمت کر
رنگیں ہو کسی کا دامن بھی اشکوں کا یہاں تک بہنا ہے

اپنا ہی سوال اے دلؔ ہے جواب اس بزم میں آخر کیا کہیے
کہنا ہے وہی جو سننا ہے سننا ہے وہی جو کہنا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse