ماہ نو پردۂ سحاب میں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ماہ نو پردۂ سحاب میں ہے
by سخی لکھنوی

ماہ نو پردۂ سحاب میں ہے
یا کہ ابرو کوئی نقاب میں ہے

رنگت اس رخ کی گل نے پائی ہے
اور پسینے کی بو گلاب میں ہے

آج ساقی شکار کھیلے گا
بط مے کانسۂ شراب میں ہے

طول روز فراق کہتا ہے
حشر کا روز کس حساب میں ہے

شربت قند کی سی شیرینی
دہن یار کے لعاب میں ہے

شان سے کچھ بگڑ گئی شاید
زلف شب رنگ پیچ و تاب میں ہے

ہو سخیؔ کو نہ فکر یا اللہ
عرض اتنی تیری جناب میں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse