مانی ہزار منتیں رد نہ ہوئی بلائے دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
‏مانی ہزار منتیں رد نہ ہوئی بلائے دل
by داغ دہلوی

مانی ہزار منتیں رد نہ ہوئی بلائے دل
درد کچھ اور بڑھ گیا میں نے جو کی دوائے دل

میری طرح خدا کرے تیرا کسی پے آئے دل
تو بھی جگر کو تھام کہ کہتا پھرے کے ہائےدل

غنچہ سمجھ کے لے لیا چُٹکی سے یوں مسل دیا
ان کا تو اک کھیل تھا لُٹ گیا میرا ہائے دل

روندو نہ میری قبر کو اس میں دبی ہیں حسرتیں
رکھنا قدم سنبھال کر دیکھو کُچل نہ جائے دل

عاشقِ نامراد کی قبر پہ تھا لکھا ہوا
جس کو ہو زندگی عزیز وہ نہ کہیں لگائے دل

پوچھتے کیا ہو میرے غم ملتے ہیں بے وفا صنم
چھوڑو بُتوں کی دوستی دیتا یہی ہے رائے دل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse